گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا
واہ اے طالعِ خفتہ کہ شبِ عیش میں بھی
وہم بے خوابیِ اغیار نے سونے نہ دیا
وا رہیں صورتِ آغوش، سحر تک آنکھیں
شوقِ ہم خوبیِ دلدار نے سونے نہ دیا
یاس سے آنکھ بھی جھپکی تو توقع سے کھلی
صبح تک وعدۂ دیدار نے سونے نہ دیا
طالعِ خفتہ کی تعریف کہاں تک کیجے
پاؤں کو بھی خلشِ خار نے سونے نہ دیا
دردِ دل سے جو کہا نیند نہ آئی؟ تو کہا
مجھ کو کب نرگسِ بیمار نے سونے نہ دیا
شبِ ہجراں نے کہا قصۂ گیسوئے دراز
شیفتہ تو بھی دلِ زار نے سونے نہ دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |