گو شمع ہوں پہ محفل جاناں سے دور ہوں

گو شمع ہوں پہ محفل جاناں سے دور ہوں
by جمیلہ خدا بخش

گو شمع ہوں پہ محفل جاناں سے دور ہوں
میں عندلیب ہوں پہ گلستاں سے دور ہوں

برگ خزاں رسیدہ بنایا ہے عشق نے
میں موسم بہار میں بستاں سے دور ہوں

اے یار جستجو میں تری صورت غبار
سرگشتہ ہوں پہ گردش دوراں سے دور ہوں

پروانہ وار گو کہ جلایا ہے عشق نے
لیکن چراغ گور غریباں سے دور ہوں

گھلتا ہے دل کہ رہرو الفت کے واسطے
میں خضر ہوں پہ چشمۂ حیواں سے دور ہوں

کہتا ہے یہ پکار کے خون شہید ناز
قاتل میں تیرے گوشۂ داماں سے دور ہوں

بندہ ہوں عشق کا مرا مذہب نہ پوچھئے
آزاد ہو کے گبرو مسلماں سے دور ہوں

موج نسیم صبح ستاتی ہے کیا مجھے
میں بوئے گل کی طرح گلستاں سے دور ہوں

کہتا ہے اس کی زلف میں پھنس کر یہ مرغ دل
قیدی تو ہوں جمیلہؔ پہ زنداں سے دور ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse