گھر غیر کے جو یار مرا رات سے گیا
گھر غیر کے جو یار مرا رات سے گیا
جی سینے سے نکل گیا دل ہات سے گیا
میں جان سے گیا تری خاطر ولیک حیف
تو مجھ سے ظاہری بھی مدارات سے گیا
یا سال و ماہ تھا تو مرے ساتھ یا تو اب
برسوں میں ایک دن کی ملاقات سے گیا
دیکھا جو بات کرتے تجھے رات غیر سے
دل میرا ہاتھ سیتی اسی بات سے گیا
اس رشک مہ کی بزم میں جاتے ہی آفتابؔ
دل سا رفیق میرا مرے سات سے گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |