گھر ہے وحشت خیز اور بستی اجاڑ
گھر ہے وحشت خیز اور بستی اجاڑ
ہو گئی ایک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ
آج تک قصر عمل ہے ناتمام
بندھ چکی ہے بارہا کھل کھل کے پاڑ
ہے پہنچنا اپنا چوٹی تک محال
اے طلب نکلا بہت اونچا پہاڑ
کھیلنا آتا ہے ہم کو بھی شکار
پر نہیں زاہد کوئی ٹٹی کی آڑ
دل نہیں روشن تو ہیں کس کام کے
سو شبستاں میں اگر روشن ہیں جھاڑ
عید اور نوروز ہے سب دل کے ساتھ
دل نہیں حاضر تو دنیا ہے اجاڑ
کھیت رستے پر ہے اور رہرو سوار
کشت ہے سرسبز اور نیچی ہے باڑ
بات واعظ کی کوئی پکڑی گئی
ان دنوں کمتر ہے کچھ ہم پر لتاڑ
تم نے حالیؔ کھول کر ناحق زباں
کر لیا ساری خدائی سے بگاڑ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |