گھر یار کا ہم سے دور پڑا گئی ہم سے راحت ایک طرف
گھر یار کا ہم سے دور پڑا گئی ہم سے راحت ایک طرف
دل ایک طرف آہ ایک طرف ملنے کی حسرت ایک طرف
ہے موت کا رنگ مرا جیونا جیوں دھندلا چراغ ہوں میں
سکرات کی ظلمت ایک طرف ہستی کی تہمت ایک طرف
جی آ رہا دیدۂ تر میں مجھے دم لینے کی تاب نہیں
ضعف ایک طرف درد ایک طرف اور کاہش طاقت ایک طرف
جوں مشت سپند مرے اعضا جل دل کے انگارے سے اڑتے ہیں
داغوں کا محشر ایک طرف نالوں کی قیامت ایک طرف
دل ہات دے یار کے کیونکے لیوں پھیر آہ جہاں کی ملامت سے
جی لیوے ہے غیرت ایک طرف مارے ہے مروت ایک طرف
غل ہے پتھراؤ ہے لڑکوں کا اک آہ کا لٹھ ہے ہات مرے
ہے سارا عالم ایک طرف دیوانۂ عزلتؔ ایک طرف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |