گھستے گھستے پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی
گھستے گھستے پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی
آدھی چھٹنے کی ہوئی تدبیر آدھی رہ گئی
نیم بسمل ہو کے میں تڑپا تو وہ کہنے لگے
چوک تجھ سے ہو گئی تعزیر آدھی رہ گئی
شام سے تھی آمد آمد نصف شب کو آئے وہ
یاوری کر کے مری تقدیر آدھی رہ گئی
نصف شہر اس گیسوئے مشکیں نے دل بستہ کیا
خسرو تاتار کی توقیر آدھی رہ گئی
چودھویں شب نا مبارک ماہ کامل کو ہوئی
نصف منصب ہو گیا جاگیر آدھی رہ گئی
تیز کب تک ہوگی کب تک باڑھ رکھی جائے گی
اب تو اے قاتل تری شمشیر آدھی رہ گئی
آدھے دھڑ کا دم نکلتا تھا کہ آیا خط شوق
پڑھتے پڑھتے مر گئے تحریر آدھی رہ گئی
رنگ پھرنے بھی نہ پایا تھا کہ خود رفتہ ہوا
بن کے مانیؔ سے تری تصویر آدھی رہ گئی
نصف شب تک دی تسلی پھر وہ یوسف اٹھ گیا
خواب حسرت کی مری تعبیر آدھی رہ گئی
خود کہا قاتل سے میں نے پھر دوبارہ ذبح کر
کٹ کے جب گردن دم تکبیر آدھی رہ گئی
دوپہر رات آ چکی جب گفتگو کی عشق کی
یار سے آدھی ہوئی تقریر آدھی رہ گئی
امتحان میں کندنی رنگ ان کا دونا ہو گیا
اڑتے اڑتے سرخیٔ اکسیر آدھی رہ گئی
اے پری رو جلد زنداں میں شرفؔ کی لے خبر
ٹکڑے کر کے پھینک دی زنجیر آدھی رہ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |