گھٹا دیا رتبہ ہر حسیں کا مٹا دیا رنگ حور عین کا

گھٹا دیا رتبہ ہر حسیں کا مٹا دیا رنگ حور عین کا
by جلیل مانکپوری
298358گھٹا دیا رتبہ ہر حسیں کا مٹا دیا رنگ حور عین کاجلیل مانکپوری

گھٹا دیا رتبہ ہر حسیں کا مٹا دیا رنگ حور عین کا
نہیں ہے یہ چاند چودھویں کا شباب کا میرے مہ جبیں کا

یہ رات ہے وصل کی مری جاں بھرے ہیں دل میں ہزاروں ارماں
نہیں نہ نکلے زباں سے ہاں ہاں ارے یہ موقع نہیں نہیں کا

تباہ وحشت میں ہوں میں در در ابھی بگڑ جائے یہ بنا گھر
جو دل میں رکھوں تجھے ستم گر تو دل نہ رکھے مجھے کہیں کا

نہ قتل سے میرے ہاتھ کھینچو لہو بہا کر بہار دیکھو
پڑے گی اڑ کر جو چھینٹ اس کی بنے گی وہ پھول آستیں کا

ستم تھا بچپن کا وہ زمانہ غضب وہ دل کا پسند آتا
وہ گود میں میری لوٹ جانا مچل مچل کر کسی حسیں کا

تمہیں سے روئے زمیں معطر تمہیں سے سطح فلک منور
تمہیں تو ہو پھول یاسمیں کا تمہیں تو ہو چاند چودھویں کا

ادھر صبا نے یہ گل کھلایا چمن میں کلیوں کو گدگدایا
ادھر ہنسی نے ستم یہ ڈھایا کہ منہ لیا چوم اس حسیں کا

یہ رات اتنی جو بڑھ گئی ہے سیاہی اتنی جو چڑھ گئی ہے
کہیں کھلا ہے ضرور جوڑا کسی کے گیسوئے عنبریں کا

جو غیر سے یار تو ملا ہے تو دیکھ کیسا ڈبو رہا ہے
تجھے مرے آنسوؤں کا دریا مجھے پسینہ تری جبیں کا

نہ بحر جاری سحاب سے ہے نہ چاہ لبریز آب سے ہے
وہ دامن تر کا اک لقب ہے یہ نام ہے میری آستیں کا

جو دیکھ لے اس کی صورت انسان اگر ہو کافر تو لائے ایماں
جمال کیا ہے بت حسیں کا کمال ہے صورت آفریں کا

نہ شوق نظارہ مجھ سے پوچھو یہ کہہ کے سوتا ہوں روز شب کو
اٹھوں جو میں صبح کو الٰہی تو منہ دکھانا کسی حسیں کا

کچھ ایسی کی میں نے جبہہ سائی کہ مٹ گئی بخت کی برائی
ملا جو اس در سے داغ سجدہ ستارہ چمکا مری جبیں کا

زباں سے ہو شکر ادا کہاں تک بڑا ہی تھا دل نواز ناوک
کچھ اس ادا سے جگر پہ بیٹھا مزہ ملا یار ہم نشیں کا

پھرا عدم سے نہ کوئی ہمدم کہ حال یاروں کا پوچھتے ہم
عجیب دلچسپ ہے دو عالم کہ جو گیا ہو گیا وہیں کا

عرق عرق ہے جو روئے گلگوں یہ خوب موقع ہے اب نہ چونکوں
میں سر نوشت اپنی دھو ہی ڈالوں پسینہ لے کر تری جبیں کا

جلیلؔ کیا بات اس سخن کی غزل میں ہے تازگی چمن کی
جو شعر ہے شاخ نسترن کی جو لفظ ہے پھول یاسمیں کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.