گھٹے گا تیرے کوچے میں وقار آہستہ آہستہ
گھٹے گا تیرے کوچے میں وقار آہستہ آہستہ
بڑھے گا عاشقی کا اعتبار آہستہ آہستہ
بہت نادم ہوئے آخر وہ میرے قتل ناحق پر
ہوئی قدر وفا جب آشکار آہستہ آہستہ
جلائے شوق سے آئینہ تصویر خاطر میں
نمایاں ہو چلا روئے نگار آہستہ آہستہ
محبت کی جو پھیلی ہے یہ نکہت باغ عالم میں
ہوئی ہے منتشر خوشبوئے یار آہستہ آہستہ
دل و جان و جگر صبر و خرد جو کچھ ہے پاس اپنے
یہ سب کر دیں گے ہم ان پر نثار آہستہ آہستہ
عجب کچھ حال ہو جاتا ہے اپنا بے قراری سے
بجاتے ہیں کبھی جب وہ ستار آہستہ آہستہ
اثر کچھ کچھ رہے گا وصل میں بھی رنج فرقت کا
دل مضطر کو آئے گا قرار آہستہ آہستہ
نہ آئیں گے وہ حسرتؔ انتظار شوق میں یوں ہی
گزر جائیں گے ایام بہار آہستہ آہستہ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |