گھڑی گھڑی ہے ہمیں اپنے مہرباں کا خیال

گھڑی گھڑی ہے ہمیں اپنے مہرباں کا خیال (1895)
by رنج حیدرآبادی
324368گھڑی گھڑی ہے ہمیں اپنے مہرباں کا خیال1895رنج حیدرآبادی

گھڑی گھڑی ہے ہمیں اپنے مہرباں کا خیال
نہ کچھ زمیں کی خبر ہے نہ آسماں کا خیال

یہ بے خودی ہے کہ جس دن سے دل لگا بیٹھے
کہاں کا ہوش کہاں کی خبر کہاں کا خیال

اڑے ہوئے ہیں رقیبوں کے ہوش پہ اب تک
جو دل میں آپ کے آیا تھا امتحاں کا خیال

عدو سے ہنستے رہے رات بھر سر محفل
کیا نہ تم نے مرے چشم خوں فشا کا خیال

کسی کو دو نہ سر بزم بے دھڑک گالی
خدا کے واسطے رکھو ذرا زباں کا خیال

قدم جو بھول کے رکھیں رہ محبت میں
تو خضر کو بھی نہ ہو عمر جاوداں کا خیال

لگا نہ خلد میں بھی دل میں کیا بیاں کروں
وہاں بھی مجھ سے نہ چھوٹا ترے مکاں کا خیال

میں اس طرف کبھی رخ بھول کر نہیں کرتا
میں کیا بتاؤں جب آتا ہے پاسباں کا خیال

خدا کے واسطے مانو مرا کہا اے رنجؔ
خدا کے واسطے چھوڑو یہ ہے کہاں کا خیال


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.