گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
مہکی ہوئی ہے آج ہوا اور ہوا سے ہم
شوخی سے ایک جا تجھے دم بھر نہیں قرار
بے چین تجھ سے تیری ادا اور ادا سے ہم
آرائشوں سے کشتن عاشق مراد ہے
ہوتی ہے پائمال حنا اور حنا سے ہم
ہم سے وصال میں بھی ہوئے وہ نہ بے حجاب
لپٹی رہی بدن سے ردا اور ردا سے ہم
کس منہ سے ہاتھ اٹھائیں فلک کی طرف ظہیرؔ
مایوس ہے اثر سے دعا اور دعا سے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |