ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
جن سے امید تھی اور آگ لگانے آئے
درد مندوں کی یوں ہی کرتے ہیں ہمدردی لوگ
خوب ہنس ہنس کے ہمیں آپ رلانے آئے
خط میں لکھتے ہیں کہ فرصت نہیں آنے کی ہمیں
اس کا مطلب تو یہ ہے کوئی منانے آئے
آنکھ نیچی نہ ہوئی بزم عدو میں جا کر
یہ ڈھٹائی کہ نظر ہم سے ملانے آئے
طعنے بے صبر یوں کے ہائے تشفی کے عوض
اور دکھتے ہوئے دل کو وہ دکھانے آئے
اور تو سب کے لیے ہے تیری محفل میں جگہ
ہم جو بیٹھیں ابھی دربان اٹھانے آئے
چٹکیاں لینے کو پہلو میں رہا ایک نہ ایک
تو نہیں تو تیرے ارمان ستانے آئے
بیکسی کا تو جلا دل مری تربت پہ حفیظؔ
کیا ہوا وہ نہ اگر شمع جلانے آئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |