ہائے اس بے خود شباب کا رنگ
ہائے اس بے خود شباب کا رنگ
لال انگارہ سا شراب کا رنگ
ہو گیا خون حسرت دیدار
دے دیا اشک نے شہاب کا رنگ
اس کی خوش بو گلاب کی خوش بو
رنگ اس شوخ کا گلاب کا رنگ
ستیاناس ہو گیا دل کا
کیا کہوں اس جلے کباب کا رنگ
بجلیاں دشمنوں پہ گرتی ہیں
دیکھ کر میرے اضطراب کا رنگ
وہ سر شام سیر کو نکلے
پڑ گیا زرد آفتاب کا رنگ
اس کے رخ پر نکھر گئی سرخی
اللہ اللہ اس حجاب کا رنگ
ماند ہے رات دن ترے آگے
ماہتاب اور آفتاب کا رنگ
اتنی شوخی صفیؔ کسی میں کہاں
رنگ میں رنگ تو شراب کا رنگ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |