ہائے اس شوخ کا انداز سے آنا شب وصل
ہائے اس شوخ کا انداز سے آنا شب وصل
اور رہ رہ کے وہ احسان جتانا شب وصل
قہر ہے زہر ہے اغیار کو لانا شب وصل
ایسے آنے سے تو بہتر ہے نہ آنا شب وصل
دور کوسوں میری بالیں سے اڑی پھرتی ہے
کیا کوئی ڈھونڈ لیا اور ٹھکانا شب وصل
حاصل اس ذکر تغافل سے گزشت انچہ گزشت
فائدہ فتنۂ خفتہ کو جگانا شب وصل
یہ لگاوٹ تو رقیبوں کے رقیبوں سے رہے
اب کبھی آ کے مجھے منہ نہ دکھانا شب وصل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |