ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا
ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا
سمجھے یہ رنگ ہم بھی کچھ رنگ لائیے گا
یہ شوخیاں تمہاری لکھی ہوئی ہیں دل پر
آخر کبھی تو میرے قابو میں آئیے گا
پھر میں بھی کچھ کہوں گا دیکھو زبان روکو
پھر منہ چھپا کے مجھ سے آنسو بہائیے گا
ذات شریف ہو تم میں خوب جانتا ہوں
طوفان اور کوئی مجھ پر اٹھائیے گا
ہاں شمع کا میں گل ہوں ناصح کی گفتگو ہوں
بڑھ جاؤں گا جہاں تک مجھ کو گھٹائیے گا
امیدوار باقی کچھ اور رہ گئے ہیں
پھر بھی نقاب گیسو منہ سے ہٹائیے گا
بے وجہ یہ نہیں ہے انداز گفتگو کا
پھر کل کی طرح اے جاں باتیں سنائیے گا
میں ہوں مزاج قاتل لازم ہے خوف مجھ سے
جھوٹی قسم نہیں ہوں ہر دم جو کھائیے گا
یہ کیوں ہے ناامیدی درگاہ کبریا سے
جو کچھ کہ آرزو ہے ویسا ہی پائیے گا
مشتاق نے تو جاں دی گلگو لباس کیوں ہو
یہ رنگ نو عروسی کس کو دکھائیے گا
دیکھو رقیب آئے دیکھو رقیب آئے
کیا منہ اب آپ کا ہے جو منہ چھپائیے گا
ہم خوب جانتے ہیں استادیاں تمہاری
محفل میں بیٹھے بیٹھے آنکھیں ملایئے گا
آخر کچھ انتہا بھی بے رحمیوں کی صاحب
کہیے تو عاشقوں کو کب تک ستائیے گا
ممکن نہیں جو نیت بدلے تمہاری اے جاں
کیا قہر آج کی شب ہم پر نہ لائیے گا
کچھ لحظہ اور ٹھہرو تا روح تن سے نکلے
آئے گی اور آفت گر آپ جائیے گا
سمجھے ہوئے ہیں جو کچھ دل میں بھرے ہوئے ہے
کاہے کو آئیے گا کاہے کو آئیے گا
آؤ تو جلد آؤ دم بھر کے بعد اے جاں
مجھ کو نہ پائیے گا مجھ کو نہ پائیے گا
سن لیجئے گا جو کچھ مدت سے آرزو ہے
فرصت ہو گر میسر دم بھر کو آئیے گا
کچھ دور میں نہیں ہوں لازم ہے یاد کرنی
مانند دل مجھے بھی پہلو میں پائیے گا
ٹھنڈی کبھی نہ ہوں گی کیا گرمیاں تمہاری
آخر نسیمؔ کا دل کب تک جلائیے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |