ہاتھ سے ہیہات کیا جاتا رہا
ہاتھ سے ہیہات کیا جاتا رہا
مرنے جینے کا مزا جاتا رہا
زندگی کا آسرا جاتا رہا
ہائے جینے کا مزا جاتا رہا
لے گیا سرمایۂ صبر و قرار
مایہ دار اب صبر کا جاتا رہا
عمر بھر کی سب کمائی لٹ گئی
زیست کا برگ و نوا جاتا رہا
دل اگر باقی رہا کس کام کا
چین دل کا اے خدا جاتا رہا
زندگانی کی حلاوت اٹھ گئی
دانہ پانی کا مزا جاتا رہا
جو سہارا تھا دم درماندگی
وہ بڑھاپے کا عصا جاتا رہا
کیجیے کس بات کی اب آرزو
آرزو کا مدعا جاتا رہا
گل ہوا اپنا چراغ آرزو
نور گھر کا اے خدا جاتا رہا
ہائے کیسا لٹ گیا باغ مراد
کیا شجر پھولا پھلا جاتا رہا
روئیے کیا زندگانی کو ظہیرؔ
موت کا بھی اب مزا جاتا رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |