ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام

ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
by مرزا غالب
297791ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا ناممرزا غالب

ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر دم صبح
یہی انداز اور یہی اندام
بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز ہے گردش ایام
اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام
مرحبا اے سرور خاص خواص
حبذا اے نشاط عام عوام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
اس کو بھولا نہ چاہیے کہنا
صبح جو جائے اور آئے شام
ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام
راز دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمام
جانتا ہوں کہ آج دنیا میں
ایک ہی ہے امید گاہ انام
میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالبؔ اس کا مگر نہیں ہے غلام
جانتا ہوں کہ جانتا ہے تو
تب کہا ہے بہ طرز استفہام
مہر تاباں کو ہو تو ہو اے ماہ
قرب ہر روزہ بر سبیل دوام

تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
جز بہ تقریب عید ماہ صیام
جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہ تمام
ماہ بن ماہتاب بن میں کون
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
ہے مجھے آرزوے بحشش خاص
گر تجھے ہے امید رحمت عام
جو کہ بخشے گا تجھ کو فر فروغ
کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام
جب کہ چودہ منازل فلکی
کرچکے قطع تیری تیزی گام
تیرے پر تو سے ہوں فروغ پذیر
کوے و مشکوے و صحن و منظر و بام
دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز
اپنی صورت کا ایک بلوریں جام
پھر غزل کی روش پہ چل نکلا
توسن طبع چاہتا تھا لگام
زہر غم کر چکا تھا میرا ...
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہو زیست حرام
بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذت دشنام
کعبے میں جا بجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دیر میں احرام
اس قدح کا ہے دور مجھ کو نقد
چرخ نے لی ہے جس سے گردش وام
بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار
دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام
چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آے
کیوں رکھوں ورنہ غالب اپنا نام
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
اے پری چہرہ پیک تیز خرام
کون ہے جس کے در پہ ناصبہ سا
ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام
تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نام شاہنشہ بلند مقام
قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ
مظہر ذوالجلال و الاکرام
شہسوار طریقۂ انصاف
نو بہار حدیقۂ اسلام
جس کا ہر فعل صورت اعجاز
جس کا ہر قول معنی الہام
بزم میں میزبان قیصر و جم
رزم میں اوستاد رستم و سام
اے ترا لطف زندگی افزا
اے ترا عہد فرخی فرجام
چشم بد دور خسروانہ شکوہ
لؤحش اللہ عارفانہ کلام
جاں نثاروں میں تیرے قیصر روم
جرعہ خواروں میں تیرے مرشد جام
وارث ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام
زور بازو میں مانتے ہیں تجھے
گیو و گودرز و بیژن و رہام
مرحبا موشگافی ناوک
آفریں آب داری صمصام
تیر کو تیرے تیر غیر ہدف
تیغ کو تیری تیغ خصم نیام
رعد کا کررہی ہے کیا دم بند
برق کو دے رہا ہے کیا الزام
تیرے فیل گراں جسد کی صدا
تیرے رخش سبک عناں کا خرام
فن صورت گری میں تیرا گزر
گر نہ رکھتا ہو دست گاہ تمام
اس کے مضروب کے سر و تن سے
کیوں نمایاں ہو صورت ادغام
جب ازل میں رقم پذیر ہوئے
صفحہ ہاے لیالی و ایام
اور ان اوراق میں بہ کلک قضا
مجملاً مندرج ہوئے احکام
لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کش
لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام
آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
گنبد تیز گرد نیلی فام
حکم ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام
آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضع سوز و نم و رم و آرام
مہر رخشاں کا نام خسرو روز
ماہ تاباں کا اسم شحنۂ شام
تیری توقیع سلطنت کو بھی
دی بدستور صورت ارقام
کاتب حکم نے بموجب حکم
اس رقم کو دیا طراز دوام
ہے ازل سے روائی آغاز
ہو ابد تک رسائی انجام


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.