ہاں نفس باد سحر شعلہ فشاں ہو
ہاں نفس باد سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں چشم ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قم لب عیسی پہ فغاں ہو
اے ماتمیان شہ مظلوم کہاں ہو
بگڑی ہے بہت بات بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی
تاب سخن و طاقت غوغا نہیں ہم کو
ماتم میں شہ دیں کے ہیں سودا نہیں ہم کو
گھر پھونکنے میں اپنے محابا نہیں ہم کو
گر چرخ بھی جل جائے تو پروا نہیں ہم کو
یہ خرگہ نہ پایۂ جو مدت سے بپا ہے
کیا خیمۂ شبیر سے رتبے میں سوا ہے
کچھ اور ہی عالم ہے دل و چشم و زباں کا
کچھ اور ہی نقشا نظر آتا ہے جہاں کا
کیسا فلک اور مہر جہاں تاب کہاں کا
ہو گا دل بیتاب کسی سوختہ جاں کا
اب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق نہیں ہے
گرتا نہیں اس رو سے کہو برق نہیں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |