ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے
ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے
بس یہی موت کا بہانہ ہے
کیوں نہ برسائیں اشک دیدۂ تر
آتش عشق کا بجھانا ہے
ہو عدو جس پہ کیجیئے احسان
کچھ عجب طرح کا زمانہ ہے
یاد دلوا کے داستان وصال
عاشق زار کو رلانا ہے
رکھ دلا روز و شب امید وصال
رنج فرقت اگر بھلانا ہے
جان جاتی ہے جس جگہ سب کی
اسی کوچے میں اپنا جانا ہے
کوئی دم میں عدم کو ہوں راہی
آ اگر تجھ کو اب بھی آنا ہے
خاک ساری نہ چھوڑنا رعناؔ
ایک دن خاک ہی میں جانا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |