ہجر میں غم کش کوئی مجھ سا نہیں

ہجر میں غم کش کوئی مجھ سا نہیں
by بیتاب عظیم آبادی

ہجر میں غم کش کوئی مجھ سا نہیں
آج تک میں نے اسے دیکھا نہیں

کہنے والے نے تو سب کچھ کہہ دیا
سننے والا ایک بھی سمجھا نہیں

ماہ میں کس کو سناؤں حال زار
خواب میں بھی وہ نظر آیا نہیں

جب نظر ہو منزل مقصود پر
روک سکتی راہ کی ایذا نہیں

آرزو ہی اس کی دل میں رہ گئی
ہاتھ دامن تک کبھی پہونچا نہیں

بزم ساقی میں ہوئے وہ سرفراز
جام جن کے ہاتھ میں چھلکا نہیں

وعدۂ فردا کی پھر تفصیل کر
کیا کہا تو نے کوئی سمجھا نہیں

ہے غضب پھر صور نے چونکا دیا
نیند بھر کر میں ابھی سویا نہیں

اپنا سا منہ لے کے شانہ رہ گیا
پیچ گیسو کا کوئی سلجھا نہیں

کسب ہر دم کچھ نہ کچھ کرتی ہے روح
جیسا کل تھا آج میں ویسا نہیں

جو نہیں مست شراب بے خودی
اس نے لطف زندگی پایا نہیں

جیتے جی اپنے کو کر دیتا تھا خاک
موت سے مرنا کوئی مرنا نہیں

یاد اے بیتابؔ رکھنا یار کو
پار ہے بیڑا اگر بھولا نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse