ہجر کی راتیں

ہجر کی راتیں
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

ہجر کی راتیں کالی کالی
اس پر یاد کسی کی جاری
ایسے گہرے سناٹے میں
کس سے کہیں ہم غم کی کہانی
دنیا ساری سوتی ہے
تارے گننا بے چینی میں
آہیں بھرنا بیتابی میں
آہ ہماری سونے والو
اس حالت میں لاچاری میں
رات بسر یوں ہوتی ہے
کشتۂ غم کی اب تربت پر
حسرت روتی ہے حسرت پر
ایک اداسی کا عالم ہے
سونے والے کی قسمت پر
شمع بالیں روتی ہے
جس میں حسرت کی بستی ہے
جس کی بلندی ہر پستی ہے
یعنی جس کو دل کہتے ہیں
جس پر سب دنیا ہنستی ہے
ایک انوکھا موتی ہے
چرخ نے بیدردی بے رحمی
سچ تو یہی ہے اس سے سیکھی
آؤ عالمؔ کچھ تو بتاؤ
سب کچھ ہے پر یاس کسی کی
یاد بھلا کیوں کھوتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse