319632ہرجائیقاضی عبدالغفار

مشرب رندانہ، مزاج محرور، طبیعت آزاد، عقائد لامذہبی کی طرف مائل اور پیشہ اخبار نویسی۔ جنگ یورپ شروع ہو چکی تھی۔ میرا اخبار بمبئی سے شائع ہوتا تھا۔ اور اس زمانہ میں بہت مقبول تھا۔ حکومت کی ٹیڑھی نظریں مجھ پر پڑ رہی تھیں۔ میں بھی چھیڑ سے باز نہ آتا ، اور کچھ نہیں تو میدان جنگ کی خبروں پر سرخیاں ایسی ہی لکھتا تھا جیسے سانپ بچھوؤں کے ڈنک اتحادیوں کی فتح کو بھی شکست بنادیتا تھا اور دشمن کی شکست بھی میرے اخبار کے کالموں میں ’’شاندار مدافعت‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی تھی!۔۔۔ پھر کیا تعجب ہے کہ حکومت مجھ سے حددرجہ ناخوش تھی۔

غضب یہ ہو ا کہ اسی زمانہ میں افغانستان کی طرف سے خطرات پیدا ہونے لگے۔ افغانوں سے میرے تعلقات وسیع تھے لہٰذا اب تو خفیہ پولیس کی نگرانی مجھ پر اتنی سخت ہوگئی کہ اگر گھر میں بیٹھ کر روٹی بھی کھاتا تو نوالوں کی صحیح تعداد پولیس کے رجسٹر میں درج ہو جاتی تھی!۔۔۔ یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے۔

میرا معمول یہ تھا کہ ہر شنبہ کی شام کو چند دوستوں کے ساتھ شہر کے باہرایک لکھ پتی دوست کے باغ کی صحبت عیش میں شریک ہوا کرتا تھا،یک شنبہ کا پورا یوم تعطیل وہیں گذرتا تھا، دوشنبہ کی صبح کو میں شہر واپس آتاتھا۔ یہ باغ ایک نوجوان بوہرے سوداگر کا تھا اور اس صحبت احباب میں میرے ایک خاص ہم نفس کلکتہ کے ایک نوجوان بیرسٹر تھے جواب ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ ہر ہفتہ کم از کم ۲۴ گھنٹہ، اس طرح بسر ہوتے کہ کچھ موسیقی کا شغل ہے کچھ لطیف اغذیہ ہیں اگر چاندنی رات ہے تو باغ کے وسط میں مرمریں حوض کا کنارہ ہے، کبھی قوالی ہے، کبھی ناچ اور گانا ہے، ہو حق ہے اور اس کے تمام یا اکثر محقات!!

اس طرح شنبہ کی شام کو ایک دفعہ ہم سب وہاں گئے، یک شنبہ کو دن بھر شطرنج اور تاش کا شغل ہوتا رہا، رات کو ایک مشہور مغنیہ نے اس محفل کو اپنی موجودگی سے نوازا، دو بجے تک گانا ہوتا رہا جوانوں کی محفل میں اگر شام سے صبح تک طبلہ نہ کھڑکے تو پھر وہ محفل ننگ جوانی ہے!! مگر ’’بی صاحبہ‘‘ تھکی ہوئی تھیں، دوہی بجے گھر چلی گئیں۔ کچھ دیر توہم سب لب حوض پڑے ہوئے خود ہی گایا بجایاکیے اس کے بعد جوانی پر نیند غالب آئی، صبح سب کوشہر واپس جاناتھا، اس لیے اپنے اپنے بستر پر جا پڑے۔۔۔

اکی چھوٹا ساپہلوکاکمرہ تھا ، جس میں دوبستر لگے ہوئے تھے، ایک پر میں اور ایک پر میرے دوست بیرسٹر صاحب، موسم قدرے گرم تھا اس لیے کمرہ کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا۔ لیمپ کی بتی نیچی کر کے اس کو فرش پر رکھ دیا، ہم دونوں سو گئے!۔۔۔۔ صبح کو تین اور چار بجے کے درمیان میری آنکھ دفعتاً کھلی اور یہ محسوس ہوا کہ گویا کوئی تیسرا شخص کمرہ میں داخل ہوا ہے۔ صبح کاذب کی روشنی کمرے میں لیمپ کی دھیمی روشنی سے مل کر ایک عجب قسم کا غیر قدرتی نور پیدا کررہی ہو۔۔۔ میں نے دیکھا کہ بالکل سفید۔۔۔ ازسرتاپا۔۔۔ لباس پہنے کوئی صاحب کمرہ کے اندر داخل ہورہے ہیں، وہ آہستہ آہستہ میرے پلنگ کی طرف بڑھتے آتے تھے۔ ان کا حلیہ اور ان کی وضع قطع ذہن نشین کر لیجئے۔

لمبی اور گھنی داڑھی۔۔۔ سفید براق۔۔۔چہرہ نہایت نورانی ۔۔۔ سرخ وسفید۔۔۔چہرہ کا انداز مغلئی۔۔۔ سفید لانبا کرتا، کمر سے ایک سفید پٹکا بندھا ہوا۔۔۔ سفید شلوار ، پاؤں میں۔۔۔ مجھے یاد نہیں کہ کس رنگ کا۔۔۔ پنجابی جوتا۔۔۔ قدمیانہ بلکہ میانہ سے بھی کچھ کم۔۔۔ اس وضع قطع کا انسان۔۔۔ بالکل خواجہ خضر!۔۔۔ اور پھر ہمار ے گھر میں!! ہمارے تمام تخیلات سے کس قدر دور اور بعید تھا!۔۔۔ میں ذرا چونکا اور ایک لمحہ ان کو اپنی طرف بڑھتے دیکھارہا، پھر ذرا گھبرایا اور گھبراکر چلایا، ’’کون ہے؟ کون ہے؟’’ اتنے زور سے میری آواز بلند ہوئی کہ کمرہ گونج گیا اور برابر پلنگ پر نوجوان بیرسٹر صاحب گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔ ’’کیاہے؟ خیریت تو ہے؟‘‘ انہوں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔۔۔ اس سوال و جواب میں دو منٹ بھی بہ مشکل صرف ہوئے ہوں گے لیکن وہ سفید پوش پیر مرد جہاں کھڑے تھے وہیں غائب ہوگئے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ وہ کب گئے، کدھر گئے، کیونکر گئے۔ بہرحال ایک عکس کی طرح وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے۔ میں نے جب یہ ماجرا نوجوان بیرسٹرصاحب سے کہا تو وہ جھنجھلا گئے۔

’’لاحول ولاقوۃ، نیند خراب کر ڈالی، جب ہی تو تم سے کہتا ہوں کہ ذرا کم کھایا کرو، اناڑی کی بندوق کی طرح پیٹ بھر لیتے ہو، بدخوابی ہوتی ہے تو دوسروں کو بھی بے آرام کرتے ہو!‘‘

میں نے جب اصرار کیا کہ میری نظر نے دھوکہ نہیں کھایا تو وہ اور بگڑے:۔

’’کہیں تمہارے دادا صاحب تو قبر سے اٹھ کر تشریف نہ لائے ہوں! پوتے کے دیدار کے لیے ترس رہے ہوں گے بچارے! خدا جانے کہاں کہاں ڈھونڈ کر یہاں تک پہنچے۔۔۔ جاؤ دیکھو باہر باغ میں نے رہے ہوں!!‘‘

میں نے پھرکچھ کہنا چاہا تو انہوں نے زانو کا ایک تکیہ نکال کر میرے سر پر مارا ’’الو!!‘‘ اور یہ کہہ کر کروٹ لے لی۔

صبح کوہم لوگ شہر آگئے، میں دس بجے اپنے دفتر میں آیا۔ یہ وقت میری، تنہائی مصروفیت کا وقت ہوتا تھا اس لیے کہ ۱۲ بجے اخبار کی آخری کاپی پریس کو جاتی تھی۔ لہٰذا دفتر کے اہلکاروں کو عام ہدایت تھی کہ کوئی بھی مجھ سے ملنے آئے، میرے کمرہ میں نہ بھیجا جائے۔۔۔ ۱۱ بج چکے تھے اور ابھی مجھے ایک ضروری نوٹ لکھنا باقی تھا کہ چپراسی نے اندر آکر اطلاع دی کہ کوئی صاحب ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کو جھڑکا:

’’تمہیں معلوم نہیں کہ میں اس وقت کسی سے نہیں مل سکتا؟‘‘

چپراسی نے عذر کیا کہ باوجود منع کردینے کے وہ صاحب ملاقات پر مصر ہیں۔ بہت ہی جھلا کر میں نے کہا اچھا بلاؤ۔۔۔ دروازہ کا پردہ اٹھا اور کیا دیکھتاہوں کہ وہی رات والے ’’خواجہ خضر‘‘ مسکراتے ہوئے تشریف لارہے ہیں۔۔۔ بیک لمحہ میں غرق حیرت ہو کر بدحواس ہوگیا، پھر گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ ’’آئیے، آئیے، تشریف لائیے‘‘ میں نے بہت ہی ذوق و شوق کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا۔

’’معاف کیجئے میں اس وقت حرج کا ر کرنا نہیں چاہتا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ بہت مصروف ہیں، صرف یہ بتادیجئے کہ مکان پر آپ سے کب اور کس وقت ملاقات ہو سکے گی، تخلیہ میں کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ انہوں نے بہت آہستہ آہستہ اور نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ یہ الفاظ اداکئے مگرمیں تواب ان سے باتیں کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ ’’نہیں صاحب! مجھے فرصت ہے، تشریف تو رکھئے‘‘ میں نے کہا۔ انہوں نے فرمایا ’’جی نہیں، اس وقت تو میں نہ ٹھہروں گا صرف ملاقات کا وقت مقرر کرنے آیا تھا۔‘‘

غرض یہ کہ تقریباً پانچ منٹ تک میری طرف سے اصرار اور ان کی طرف سے انکار ہوتا رہا۔ بالآخر طے یہ ہوا کہ وہ بعد مغرب میرے مکان پر تشریف لائیں۔۔۔

اس دن بعد مغرب میری بے چینی اور بے تابی انتظار ناقابل بیان تھی۔ سات بجے، آٹھ بجے، نو بجے، دس بج گئے، دروازے پر کھٹکا ہوتا تھا تو میں اوپر کی منزل سے سڑک تک دوڑتا ہواآتا تھا ۔ ایک دفعہ، دو دفعہ، شاید دس دفعہ اسی طرح اوپر کی منزل سے اترا اور چڑھا!!کبھی اخبار اٹھا کر پڑھنے لگتا۔ کبھی کوئی کتاب اٹھائی، کبھی کمرہ میں ٹہلنے لگتا۔ آنکھیں دریچہ کے باہر، کان آواز پر لگے ہوئے۔۔۔ رات کے ۱۲ بج گئے مگر وہ نہ آئے ! مایوس ہو کر بستر پر لیٹ گیا، پھر بھی نوکروں سے کہہ دیا کہ دروازہ کاخیال رکھیں کوئی آواز دے تو فوراً کھول دیں۔۔۔۔

ساری رات گزر گئی، وہ نہ آئے ، صبح کو میں دفتر میں گیا۔ یہ امید تھی کہ شاید دفتر میں پھر تشریف لائیں۔ دن بھر انتظار کے پیچ و تا ب میں دل لگا کر کام بھی نہ کرسکا۔۔۔ لیکن وہ نہ آئے! پھر شام کو گھر پرانتظار رہا، ایک دوست کے یہاں جاکر کھانا کھانے کا وعدہ کر چکا تھا، مگر معذرت کہلا بھیجی، دوچار بے فکرے ہی ہی ہاہا کرنے کے لیے آئے ، ان کو ٹال دیا۔ لیکن وہ حضرت پھر بھی نہ آئے!۔۔۔دوتین چار اسی طرح دس پندرہ دن گذر گئے۔ پیشہ کے کاموں اور یاروں کی صحبت میں بڑے میاں کا تصور دھندلا ہو چلا۔۔۔ دس پانچ دن میں بالکل ہی بھول جاتا اگر ایک عجیب تر واقعہ پیش نہ آجاتا ۔ جسں نے اس معمہ کو اور بھی زیادہ الجھا دیا۔۔۔

دس پندرہ دن بعد، ایک روز شام کو میں اپنے دوہم پیشہ دوستوں سے ملنے گیا۔ ایک ان میں سے بمبئی کے بہت مشہوراور مقدس ’’حضرت مولانا‘‘ اور ’’پیرومرشد‘‘ تھے۔ اور دوسرے ایک جدید قسم کے ایڈیٹر۔ میں جب ان ’’حضرت مولانا‘‘ کے مکان پر پہنچا تو وہ دوسرے دوست بھی وہاں موجود تھے۔۔۔

ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، ہوتے ہوتے کچھ روحانیت کا تذکرہ چھڑ گیا، باتوں باتوں میں مجھے وہ باغ والا واقعہ یادآگیا میں نے کہا ’’آپ دونوں صاحبوں کو ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں ایک عجیب واردات ہے مگر مجھ پر ہنسیے گا نہیں، واقعہ بالکل سچا ہے، دماغ میرا بالکل صحیح ہے۔۔۔‘‘ اس تمہید کے ساتھ میں نے وہ واقعہ بیان کرنا شروع کر دیا۔ جب میں نے صبح کے قریب پییرمرد کا کمرہ میں آنا بیان کیا تو ایڈیٹر صاحب نے قطع کلام کر کے مجھ سے سوال کیا۔

’’بتائے، کس دن اور کس وقت ، ٹھیک ٹھیک بتائیے‘‘۔

میں نے ان کو دن اور وقت بتایا اور پھر اپنا قصہ شروع کیا، پیرمرد کا غائب ہو جانا، صبح کو دفتر میں آنا پھر شام کو آنے کا وعدہ کرکے جانا اور پھر کبھی نہ آنا۔ جب میں یہ قصہ بیان کر رہا تھا تو دیکھ رہا تھا کہ وہ دونوں صاحب حیران ہوہوکر ایک دوسرے کی صورت دیکھتے جاتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے بھی ہوتے جاتے ہیں۔

’’کس وقت وہ دفتر میں آئے تھے اور کیا گفتگو کی تھی انہوں نے؟ ذرا مفصل فرمائیے‘‘۔ حضرت مولانا نے سوال کیا۔ میں نے وقت بھی بتا دیا اور لفظ بہ لفظ گفتگو بھی دہرا دی۔

’’ذراان کا حلیہ تو پھر بیان کیجئے‘‘۔ ایڈیٹر صاحب نے فرمائش کی۔

میں نے حلیہ بھی مفصل دہرایا۔

’’کیا سمجھے آپ‘‘۔ مولانا نے ایڈیٹر صاحب سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’آپ کیا سمجھے؟‘‘ ایڈیٹر صاحب نے مولانا سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’عجیب!‘‘ مولانا نے فرمایا۔

’’عجیب؟‘‘ ایڈیٹر صاحب نے فرمایا۔

میں حیران ہو کر دونوں کا منہ تک رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اگر مجھے شب میں بدہضمی کی وجہ سے خلل دماغ کا دورہ ہوتا ہے تو ان دونوں کو دن میں بھی یہ شکایت لاحق ہو جاتی ہے!!۔۔۔

میں نے کہا ’’کچھ تو فرمائیے، یہ اشارے کنائے کیسے؟‘‘

’’کہہ دو!‘‘ مولانا نے ایڈیٹر صاحب سے کہا۔

’’کہہ دوں؟‘‘ ایڈیٹر صاحب نے مولانا کو جواب دیا۔

ایڈیٹر صاحب سنبھل بیٹھے، انہوں نے کہا ’’سنیئے جناب یہ عجیب و غریب واقعہ ہے ۔جو واقعہ آپ نے سنایا بالکل یہی واقعہ مجھ پر گذر چکا ہے، مگر سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میرے پاس بھی وہ پیر مرد ٹھیک اسی شب میں اسی وقت آئے تھے جس وقت وہ آپ کے پاس آئے تھے، اور پھر اسی طرح کمرہ کے اندر داخل ہوتے ہی ہوتے غائب بھی ہوگئے تھے۔۔۔ مگر عجیب تر جو بات ہے وہ یہ ہے کہ صبح کو بھی وہ میرے دفتر میں ٹھیک اسی وقت اور اسی طرح آپ کے دفتر میں، وہی باتیں جو انہوں نے مجھ سے کیں جو آپ سے کیں، اسی طرح مجھ سے وقت مقرر کرا کے گئے جس طرح آپ سے۔۔۔ اور یہ تو ارد تو دیکھئے کہ میں نے بھی اسی دن وہی وقت مقرر کیا جو آپ نے مقرر کیا تھا۔۔۔ مگر وہ پھر آج تک ٹوٹ کو نہ آئے جس طرح آپ منتظر ہیں میں بھی سراپا انتظار ہوں!۔۔۔ اتنا کہہ کر ایڈیٹر صاحب نے رومال سے چہرہ کا پسینہ خشک کیا پھر فرمانے لگے:۔

’’یہ واقعہ دوسرے ہی دن میں نے مولانا سے بیان کر دیا تھا۔۔۔پوچھیے مولانا سے۔۔۔ میرے آپ کے درمیان ایک خفیف جزو کا بھی کوئی اختلاف نہیں!۔۔۔عجیب، عجیب!! ہم تینوں بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔۔۔۔

میں نے کہا ’’تصوراور توہم کے توارد کی یہ ایک عجیب مثال ہے‘‘۔

’’تصور اور توہم؟‘‘ مولانا نے تعجب کے لہجہ میں فرمایا۔

’’تصور اور توہم! آپ اس واقعہ کو تصور او ر توہم سمجھ رہے ہیں۔ نہیں صاحب! نہیں! نہ یہ تصورہے اورنہ توہم نہ توارد! روحانیت کی ایک ماورائے عقل و فہم کارفرمائی ہے! آپ تو مادہ پرست ہیں روح کے ان معجزات اور تصرفات کوکیا خاک سمجھیں گے، لیکن آپ کو قائل ہو جانا چاہیے۔ ۔۔ اب تو قائل ہو جانا ہی چائیے کہ اس عالم ظاہر کے علاوہ کوئی باطن بھی ہے جہاں ایسی باتیں بالکل ناممکن ہیں۔۔۔‘‘

میں نے کہا ’’مولانا! دماغ کے اندرونی دنیا میں ایسے عجائبات کا ظہور ناممکن نہیں۔ اس علم کے ماہرین ، اس قسم کے واقعات پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔۔۔‘‘

’’خدا کے لیے حضرت !‘‘ مولانا نے بگڑ کر فرمایا۔۔۔ ’’ماہرین اور مبصرین کا ذکر چھوڑئیے۔ ان کم بختوں نے زندگی تلخ کر دی ہے، روز کلیات قائم کرتے ہیں، روز ان کو توڑتے ہیں، دیواریں بناتے ہیں اور گراتے ہیں۔ عقل کے چکر نے ان کو گھن چکر بنا دیا ہے۔ ’’روحانیت‘‘ کی لطیف دنیا میں جو کچھ ہوا کرتا ہے اور ہو سکتا ہے اس کو یہ احمق کیا جانیں۔۔۔‘‘

میں نے کہا’’خاک ڈالیے اس بحث پر، مگر یہ تو بتائیے کہ وہ خواجہ خضر جنہوں نے مجھے بھی سونے سے جگایا اور ایڈیٹر صاحب کو بھی بیک وقت۔۔۔ حالانکہ میں اور ایڈیٹر صاحب اس وقت ایک دوسرے سے کم از کم ۱۵ میل کے فاصلہ پر سورہے تھے۔۔۔ اور پھر وہ دن میں بھی بیک وقت دونوں کے پاس آئے تھے، کوئی ان کا مقصود بھی تھا یا محض دل لگی تھی؟۔۔۔

’’کوئی پیام لائے ہوں گے، کوئی بات کہنا چاہتے ہوں گے، یا محض اپنی صورت دکھا کر تمہیں متنبہ کرنا چاہتے ہوں گے۔۔۔ یاکوئی اور منشا ہوگا۔۔۔ کیا معلوم کسی کو!‘‘ مولانا نے میرے اعتراض کا۔۔۔ اپنے خیال میں بہت ہی مختتم جواب دیا!!

بحث کچھ اور بڑھتی لیکن پاس کی مسجد سے اذان کی آواز آئی اور مولانا نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔

میں اور ایڈیٹر صاحب راستے بھر یہی ذکر کرتے ہوئے آئے۔۔۔ وہ بھی حیران، میں بھی حیران! ’’کچھ بھی ہو‘‘ میں نے کہا ’’وہ پیر مرد ہیں بہت ہرجائی!‘‘۔۔۔۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.