ہر آن تمہارے چھپنے سے ایسا ہی اگر دکھ پائیں گے ہم

ہر آن تمہارے چھپنے سے ایسا ہی اگر دکھ پائیں گے ہم
by نظیر اکبر آبادی

ہر آن تمہارے چھپنے سے ایسا ہی اگر دکھ پائیں گے ہم
تو ہار کے اک دن اس کی بھی تدبیر کوئی ٹھہرائیں گے ہم

بیزار کریں گے خاطر کو پہلے تو تمہاری چاہت سے
پھر دل کو بھی کچھ منت سے کچھ ہیبت سے سمجھائیں گے ہم

گر کہنا دل نے مان لیا اور رک بیٹھا تو بہتر ہے
اور چین نہ لینے دیوے گا تو بھیس بدل کر آئیں گے ہم

اول تو نہیں پہچانو گے اور لو گے بھی پہچان تو پھر
ہر طور سے چھپ کر دیکھیں گے اور دل کو خوش کر جائیں گے ہم

گر چھپنا بھی کھل جاوے گا تو مل کر افسوں سازوں سے
کچھ اور ہی لٹکا سحر بھرا اس وقت بہم پہنچائیں گے ہم

جب وہ بھی پیش نہ جاوے گا اور شہرت ہووے گی پھر تو
جس صورت سے بن آوے گا تصویر کھنچا منگوائیں گے ہم

موقوف کرو گے چھپنے کو تو بہتر ورنہ نظیرؔ آسا
جو حرف زباں پر لائیں گے پھر وہ ہی کر دکھلائیں گے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse