ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے
by دل شاہ جہانپوری

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے
تکمیل وفا ہے مٹ جانا جینے کی تمنا کون کرے

جو غافل تھے ہشیار ہوئے جو سوتے تھے بیدار ہوئے
جس قوم کی فطرت مردہ ہو اس قوم کو زندہ کون کرے

ہر صبح کٹی ہر شام کٹی بیداد سہی افتاد سہی
انجام محبت جب یہ ہے اس جنس کا سودا کون کرے

حیراں ہیں نگاہیں دل بے خود محجوب ہے حسن بے پروا
اب عرض تمنا کس سے ہو اب عرض تمنا کون کرے

فطرت ہے ازل سے پابندی کچھ قدر نہیں آزادی کی
نظروں میں ہیں دل کش زنجیریں رخ جانب صحرا کون کرے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse