ہر طرف سوز کا انداز جداگانہ ہے
ہر طرف سوز کا انداز جداگانہ ہے
مطمئن شمع ہے یا رقص میں پروانہ ہے
برتر از وہم و تصور مرا مے خانہ ہے
زندگی کیا ہے مری لغزش مستانہ ہے
وہ جو اک شوق جنوں ساز کا افسانہ ہے
آنکھ شاید کہے دل تو ابھی دیوانہ ہے
ہوش آیا نہ کبھی میں نے جنوں کو سمجھا
داور حشر یہیں تک مرا افسانہ ہے
اب نگہ ان کی نگاہوں سے ملے یا نہ ملے
خود ہی پہنچے گا جو تقدیر کا پیمانہ ہے
آپ سن لیں تو کچھ آ جائے اثر بھی شاید
یوں تو ہر طرح مکمل مرا افسانہ ہے
حسن اک پھول سہی نازک و رنگیں لیکن
عشق سے دور ہے جب تک گل ویرانہ ہے
کثرت فہم نے اتنا بھی سمجھنے نہ دیا
میں ہوں افسانہ کہ دنیا مرا افسانہ ہے
اے خوشا طالع بیدار محبت باسطؔ
آج ان کی بھی نظر میں مرا افسانہ ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |