ہر طرف یار کا تماشا ہے

ہر طرف یار کا تماشا ہے
by سراج اورنگ آبادی
294490ہر طرف یار کا تماشا ہےسراج اورنگ آبادی

ہر طرف یار کا تماشا ہے
اس کے دیدار کا تماشا ہے

عشق اور عقل میں ہوئی ہے شرط
جیت اور ہار کا تماشا ہے

خلوت انتظار میں اس کی
در و دیوار کا تماشا ہے

سینۂ داغ داغ میں میرے
صحن گل زار کا تماشا ہے

ہے شکار کمند عشق سراجؔ
اس گلے ہار کا تماشا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.