ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے

ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے
by کیفی حیدرآبادی

ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے
دنیا میں کیا کسی سے محبت مجھی کو ہے

خود میں نے اپنے آپ کو بد نام کر دیا
ثابت ہوا کہ مجھ سے عداوت مجھی کو ہے

تم بھی تو روز دیکھتے رہتے ہو آئینہ
سچ بولو کیا پسند یہ صورت مجھی کو ہے

تم کو تو کچھ ضرور نہیں پاس دوستی
ہاں یہ ضرور ہے کہ ضرورت مجھی کو ہے

جب لطف تھا کہ اس کو بھی ہوتا مرا خیال
کیفیؔ غضب تو یہ ہے محبت مجھی کو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse