ہر چند بھرے دل میں ہیں لاکھوں ہی گلے پر
ہر چند بھرے دل میں ہیں لاکھوں ہی گلے پر
کیا کہئے کہ کھلتا نہیں منہ وقت ملے پر
بے درد وہ ایسا ہے کہ مرہم کی جگہ ہائے
چھڑکے ہے نمک میرے ہر اک زخم چھلے پر
تا دل کو نہ واشد ہو تو کیا لطف ملے ہائے
کھلتی ہے جو بو غنچۂ گل کی تو کھلے پر
مشہور جوانی میں ہو وہ کیوں نہ جگت باز
میلان طبیعت تھا لڑکپن سے ضلے پر
ہم گلشن حیرت میں ہیں پرواز کہاں کی
جوں بلبل تصویر کبھی ٹک نہ ہلے پر
سن وصف دہن دیجئے کچھ منہ سے پیارے
مجھ شاعر مفلس کی ہے گزران صلے پر
کس منہ سے بیاں کیجئے وہ لطف کہ جرأتؔ
دشنام جو واں ملتی ہیں ٹک آنکھ ملے پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |