ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں
ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں
مآل شوق ہوں آئینہ وفا ہوں میں
کہاں یہ وسعت جلوہ کہاں یہ دیدۂ تنگ
کبھی تجھے کبھی اپنے کو دیکھتا ہوں میں
شہید عشق کے جلوے کی انتہا ہی نہیں
ہزار رنگ سے عالم میں رونما ہوں میں
مرا وجود حقیقت مرا عدم دھوکا
فنا کی شکل میں سرچشمۂ بقا ہوں میں
ہے تیری آنکھ میں پنہاں مرا وجود و عدم
نگاہ پھیر لے پھر دیکھ کیا سے کیا ہوں میں
مرا وجود بھی تھا کوئی چیز کیا معلوم
اس اعتبار سے پہلے ہی مٹ چکا ہوں میں
شمار کس میں کروں نسبت حقیقی کو
خدا نہیں ہوں مگر مظہر خدا ہوں میں
مرا نشاں نگہ حق نگر پہ ہے موقوف
نہ خود شناس ہوں ہادیؔ نہ خود نما ہوں میں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |