ہزار مرتبہ دیکھا ستم جدائی کا
ہزار مرتبہ دیکھا ستم جدائی کا
ہنوز حوصلہ باقی ہے آشنائی کا
پری اٹھی مرے پہلو سے بارہا ناکام
فریفتہ ہوں تری طرز دل ربائی کا
مجھے عذاب جہنم کہ بت پرست ہوں میں
وہ بت بہشت میں دعویٰ جسے خدائی کا
فضائے باغ سے ہے گوشۂ قفس خوش تر
گر اپنے دل میں نہ ہو دغدغہ رہائی کا
ادب نہ وادئ وحشت کے مجھ سے ترک ہوئے
جنوں میں ہوش رہا ہے برہنہ پائی کا
نگاہ خندہ تغافل عتاب کہنہ ہوئے
نکال طرز نیا کوئی دل ربائی کا
بتوں کا سجدہ مری سر نوشت میں کب تھا
کہ عزم کعبہ کے در پر ہو جبہ سائی کا
اچک رہا ہے کھڑا بام عرش پر کم بخت
قلق ہے مجھ کو شہیدیؔ کی نارسائی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |