ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں ترا مبارک مقام ہے گا
ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں ترا مبارک مقام ہے گا
پلک کے پٹ ہم نے کھول دیکھے تو عین ماہ تمام ہے گا
ارے شراب خرد کے کیفی نہ کر توں دعوائے پختہ مغزی
مے محبت کا جام پی توں کہ اب تلک ظرف خام ہے گا
خیال ابروئے قبلہ رویاں ہوا ہے محراب سجدۂ دل
نماز شرط نیاز کی پڑھ صف جنوں کا امام ہے گا
اگرچہ ہر سرو راست قامت چمن میں مغرور سرکشی ہے
مقابل اس قد خوش ادا کے مری نظر میں غلام ہے گا
سراجؔ اس شعلہ رو سیں ہرگز گلہ روا نیں ہے عاشقوں کوں
تمام جلتی ہے شمع ہر شب عبث پتنگوں کا نام ہے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |