ہمارے سانولے کوں دیکھ کر جی میں جلی جامن
ہمارے سانولے کوں دیکھ کر جی میں جلی جامن
لگا پھیکا سواد اس کا نہیں لگتی بھلی جامن
سراپا آج نمکینی و نرمی و گدازی سوں
ہوا یہ سانولا گویا نمک میں کی گلی جامن
لگے ہے ترش ظاہر میں پے ہے یہ سانولا میٹھا
مزے داری میں ہے گویا یہ مصری کی ڈلی جامن
تمہارے رنگ کی تمثیل اس کوں دوں تو کھل جاوے
خوشی سیں سانوری ہو کر کے کوئل کی کلی جامن
کیا رم سانورے نیں آبروؔ کوں دیکھ کر پانی
لگا برسات کا موسم دیکھو یارو چلی جامن
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |