ہمیشہ تمنا و حسرت کا جھگڑا ہمیشہ وفا و محبت کا ہلڑ

ہمیشہ تمنا و حسرت کا جھگڑا ہمیشہ وفا و محبت کا ہلڑ
by نوح ناروی
331266ہمیشہ تمنا و حسرت کا جھگڑا ہمیشہ وفا و محبت کا ہلڑنوح ناروی

ہمیشہ تمنا و حسرت کا جھگڑا ہمیشہ وفا و محبت کا ہلڑ
تھمے کیا طبیعت رکے کس طرح دل یہ آفت وہ فتنہ یہ آندھی وہ جھکڑ

جو راز محبت کو جانے گا کوئی تو یہ جان لے وہ مچا دے گا گڑبڑ
نظر کی طرح بڑھ نظر کی طرح رک نظر کی طرح مل نظر کی طرح لڑ

مرے دل کے ہاتھوں سے ہجر وفا میں مری زندگی میں نہ ہو جائے گڑبڑ
کبھی کثرت رنج و غم کا تھپیڑا کبھی جوش امید و حسرت کی اوجھڑ

کہاں میں ہوں ایسا کہ تو مہرباں ہو کہاں قسمت ایسی کہ آساں ہو مشکل
اگر اور گاہک نہیں کوئی تیرا تو اے خنجر ناز میرے گلے پڑ

بشر کیا فرشتے جو پیٹیں ڈھنڈھورا تو کیوں کر چھپے راز کم بخت دل کا
ادھر آہ نکلی ہماری زباں سے ادھر مچ گیا ساری دنیا میں ہلڑ

سر ہم سری حسن و ناز و ادا میں نہ رکھتا تھا کوئی نہ رکھے گا کوئی
ترا عکس آئینہ ہے اور تو ہے جو لڑنا ہے تجھ کو تو اپنے ہی سے لڑ

بہار جوانی حیات جوانی نہ یہ غیر فانی نہ وہ غیر فانی
عروس چمن کا اترتا ہے گہنا خزاں کے زمانے میں ہوتی ہے پت جھڑ

ہزاروں مرے ہیں ہزاروں مرے ہیں ہزاروں مریں گے ہزاروں مٹیں گے
وہ انساں نہیں اس کو سمجھو فرشتہ جو برداشت کر لے محبت کی اوجھڑ

وہ عرض تمنا کو فریاد سمجھے وہ فریاد کو غم کی روداد سمجھے
ذرا سی مری بات تھی لیکن اس کا ہوا رفتہ رفتہ کہاں تک بتنگڑ

ادھر عیش و عشرت ادھر یاس و حسرت جہاں والے دیکھیں جہاں کی دو رنگی
کہیں کوئی پیہم بچاتا ہے بغلیں کوئی پیٹتا ہے کہیں سر دھڑا دھڑ

محبت نے چھوڑا یہ طرفہ شگوفہ بہار جوانی بھی دل نے نہ دیکھی
ابھی پھولنے پھلنے کے دن کہاں تھے مگر کٹ گئی نخل امید کی جڑ

جو اک جنگ جو ادراک صلح جو ہو تو جھگڑا نہ اٹھے بکھیڑا نہ اٹھے
دل و دل ربا میں نبھے کیا محبت ادھر وہ بھی ضدی ادھر یہ بھی اکھڑ

کیے سیکڑوں عہد و پیمان الفت مگر خیر سے کوئی سچا نہ نکلا
وہ کہتے ہیں ملنے کو اب حشر کے دن کہیں ہو نہ جائے کچھ اس دن بھی گڑبڑ

مقدر میں لکھا تھا ہن کر بگڑنا کوئی کیوں نہ مرتا کوئی کیوں نہ اٹھتا
زمیں دوز اہل زمیں ہو گئے سب پڑی آسماں سے وہ سر پر دو ہتھڑ

جو ناوک چلے اور تلوار نکلی تو قائم رہا میں ہی عہد وفا پر
کسی نے کسی کو بھی پھر کر نہ دیکھا پڑی امتحاں گھر میں کچھ ایسی بھاگڑ

سمجھتے ہیں آغاز و انجام اپنا مہ و مہر کیا آئیں گے تیرے آگے
ادھر سے ادھر ان کا پھر جائے گا منہ لگائے گی شرمندگی ایسا تھپڑ

خیال و تصور میں ہرگز نہ لانا ہنسی دل لگی میں ہمیشہ اڑانا
مرے دعویٔ عشق کی قدر کیا ہو وہ اس کو سمجھتے ہیں مجذوب کی بڑ

جہاں دیکھتا ہوں وہاں دیکھتا ہوں جدھر دیکھتا ہوں ادھر دیکھتا ہوں
محبت کی شورش محبت کی اودھم محبت کا غوغا محبت کا ہلڑ

مزا جب ہے آپس میں کچھ جنگ بھی ہو مزا جنگ میں جب ہے کچھ صلح بھی ہو
دکھا دے تلون کا اپنے تماشا ادھر لڑ ادھر مل ادھر مل ادھر لڑ

بہایا مضامین کا تم نے دریا غزل میں بہت خوب اشعار لکھے
زمانے کو اے نوحؔ حیرت نہ کیوں ہو کہ طوفان ایسا زمین ایسی گڑبڑ


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.