ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا

ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
by ریاض خیرآبادی
317907ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیاریاض خیرآبادی

ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
کہ بزم مے میں کوئی پارسا اب تک نہیں آیا

ستم بھی لطف ہو جاتا ہے بھولے پن کی باتوں سے
تجھے اے جان انداز جفا اب تک نہیں آیا

دم آخر تھے بالیں پہ جو آنے کو وہ آئے بھی
تو ہنس کر کہہ گئے وقت دعا اب تک نہیں آیا

سحر ہوتے بجھائے کون اے شمع لحد تجھ کو
کوئی جھونکا نسیم صبح کا اب تک نہیں آیا

خدا جانے ہوا کیا کوچۂ جاناں میں دل جا کر
مرا بھولا ہوا بھٹکا ہوا اب تک نہیں آیا

گیا تھا کہہ کے یہ قاصد کہ الٹے پاؤں آتا ہوں
کہاں کمبخت جا کر مر رہا اب تک نہیں آیا

جسے تم کوستے ہو عمر اس کی اور بڑھتی ہے
تمہیں سب کچھ تو آیا کوسنا اب تک نہیں آیا

ستم کرنا دغا کرنا کہ وعدے کا وفا کرنا
بتاؤ کیا تمہیں آیا ہے کیا اب تک نہیں آیا

کسی نے کوئی دشمن میں چھپا ڈالا مٹا ڈالا
گلی تو آئی ان کا نقش پا اب تک نہیں آیا

یہ کیا انصاف ہے صیاد چھوڑے قید سے مجھ کو
کہ ایسا کوئی مرغ خوش نوا اب تک نہیں آیا

بتا دیں آ گیا کیا تم کو اس اٹھتی جوانی میں
بتا دیں کان میں چپکے سے کیا اب تک نہیں آیا

بتان نازنیں جب دیکھتے ہیں مجھ سے کہتے ہیں
تمہاری جان پر قہر خدا اب تک نہیں آیا

کیا حسرت سے رخصت صبح کے تاروں کو یہ کہہ
کہ جس کا شام سے تھا آسرا اب تک نہیں آیا

یہ غفلت ہے کہ محشر میں بھی آنکھیں بند ہیں میری
سمجھتا ہوں یہی روز جزا اب تک نہیں آیا

نہ پھوٹی کوئی کوپل تک مری شاخ نشیمن میں
خزاں کے بعد موسم دوسرا اب تک نہیں آیا

دیا ہو تو دیا ہو کچھ پیام شوق آنکھوں نے
مرے لب پر تو حرف مدعا اب تک نہیں آیا

اس ابھرے ابھرے جوبن پر یوں ہی وہ بیٹھے رہ جاتے
انہیں اٹھتی جوانی کا مزا اب تک نہیں آیا

وہ دن آئے مرے سرکار اہل بزم سے پوچھیں
کہاں ہے کیوں ریاضؔ خوش نوا اب تک نہیں آیا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.