ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے

ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے
by آرزو لکھنوی

ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے
کہ وقف کرنا ہے دل ناز جاں ستاں کے لیے

جلا کے دل کو لپک سے ڈرو نہ شعلے کی
زباں دراز ہے لیکن نہیں فغاں کے لیے

اسی چمن میں کہ وسعت ہے جس کی نامحدود
نہیں پناہ کی جا ایک آشیاں کے لیے

کیا تھا ضبط نے دعویٰ رازدارئ عشق
اٹھا ہے درد کلیجے میں امتحاں کے لیے

کسی کو ڈھونڈے نہ ملتا نظر کی چوٹ کا نیل
نہ ہوتا دل میں سویدا اگر نشاں کے لیے

سوائے دل کے جو سرمایۂ دو عالم ہے
نہ کچھ یہاں کے لیے ہے نہ کچھ وہاں کے لیے

نہ عشق جرم ہے کوئی نہ دل کی بات ہے راز
برا ہو شرم کا اک قفل ہے زباں کے لیے

خلاف اپنے رہی وضع ساز و برگ چمن
قفس بنے ہیں جو تنکے تھے آشیاں کے لیے

لرز رہے ہیں فلک آرزوؔ کہ آہ رسا
چلی ہے تیغ بکف فتح ہفت خواں کے لیے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse