ہم اپنی جان سے اے بت بہت بیزار بیٹھے ہیں
ہم اپنی جان سے اے بت بہت بیزار بیٹھے ہیں
بھری برسات میں آکر پس دیوار بیٹھے ہیں
کریں کیا عرض مطلب خوف سے یاں جان جاتی ہے
لئے وہ ہاتھ میں کچھ اس طرح تلوار بیٹھے ہیں
پلٹ کر بستیوں سے یوں کہا دایہ نے شیریں سے
سنا کچھ اور اے بٹیا وہ تیشہ مار بیٹھے ہیں
ہوئے ہیں کارزار عشق میں ہم بے طرح زخمی
کہ شکل تیغ دل پر ابروئے خم دار بیٹھے ہیں
ہماری خوش نصیبی سے ہوا کچھ دال میں کالا
رقیب رو سیہ کو آج وہ پھٹکار بیٹھے ہیں
ستم گر دیکھ لینا پھٹ پڑیں گے غیر کے سر پر
نہیں بے وجہ ہم یوں صورت دیوار بیٹھے ہیں
کہا یہ آخری ہفتہ نے ہنس کر اہلکاروں سے
ذرا دیکھو مرے پیچھے میاں اتوار بیٹھے ہیں
سر محفل جو اس بت سے کبھی عرض تمنا کی
کہا چپکے سے چپ رہئے ابھی اغیار بیٹھے ہیں
اٹھا کر چوک میں سر شیخ جی نے ہنس کے فرمایا
بہت سے دشمن ایماں سر بازار بیٹھے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |