ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش
ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش
مگر یہ اک اک قدم پر اے جاں فقط عنایت کرم نوازش
کہاں یہ گھر اور کہاں یہ دولت جو آپ آتے ادھر کو اے جاں
جو آن نکلے ہو بندہ پرور تو کیجے اب کوئی دم نوازش
لگا کے ٹھوکر ہمارے سر پر بلا تمہاری کرے تأسف
کہ ہم تو سمجھے ہیں اس کو دل سے تمہارے سر کی قسم نوازش
جواب مانگا جو نامہ بر سے تو اس نے کھا کر قسم کہا یوں
زباں قلم ہو جو جھوٹ بولے کہ واں نہیں یک قلم نوازش
اٹھاویں نازاں کے ہم نہ کیوں کر نظیرؔ دل سے کہ جن کے ہوویں
جفا تلطف عتاب شفقت غضب توجہ ہتم نوازش
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |