ہم جو مست شراب ہوتے ہیں

ہم جو مست شراب ہوتے ہیں
by امیر مینائی

ہم جو مست شراب ہوتے ہیں
ذرے سے آفتاب ہوتے ہیں

ہے خرابات صحبت واعظ
لوگ ناحق خراب ہوتے ہیں

کیا کہیں کیسے روز و شب ہم سے
عمل ناثواب ہوتے ہیں

بادشہ ہیں گدا، گدا سلطان
کچھ نئے انقلاب ہوتے ہیں

ہم جو کرتے ہیں مے کدے میں دعا
اہل مسجد کو خواب ہوتے ہیں

وہی رہ جاتے ہیں زبانوں پر
شعر جو انتخاب ہوتے ہیں

کہتے ہیں مست رند سودائی
خوب ہم کو خطاب ہوتے ہیں

آنسوؤں سے امیرؔ ہیں رسوا
ایسے لڑکے عذاب ہوتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse