ہم سے کرتے ہو بیاں غیروں کی یاری آن کر

ہم سے کرتے ہو بیاں غیروں کی یاری آن کر
by محمد عیسیٰ تنہا

ہم سے کرتے ہو بیاں غیروں کی یاری آن کر
رہ گئی ہے آپ کی یہ دوست داری آن کر

ہم کو آنے سے تمہاری بزم کے کیا تھا حصول
دیکھ لیتے تھے مگر صورت تمہاری آن کر

روٹھنے پر میرے کیا لازم تھا ہو جانا خفا
بلکہ کرنی تھی تمہیں خاطر ہماری آن کر

طعن بد خواہاں سے تو اک دم نہ پاوے گا قرار
کی جو تیرے در پہ ہم نے بے قراری آن کر

تھا اگرچہ غش میں مجنوں لیکن آنکھیں کھل گئیں
سر پہ اس کے جس گھڑی لیلیٰ پکاری آن کر

جس جگر کشتہ کا تیرے لاشہ تھا خوں میں پڑا
خوب سا رویا وہاں ابر بہاری آن کر

میں بھی کیا برگشتہ طالع ہوں کہ تنہاؔ رات کو
پھر گئی در تک مرے اس کی سواری آن کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse