ہم عاشق فاسق تھے ہم صوفی صافی ہیں
ہم عاشق فاسق تھے ہم صوفی صافی ہیں
پی لیں جو کہیں اب بھی در خورد معافی ہیں
بیگار بھی ململ بھی گرمی میں شب فرقت
کام آئیں گے جاڑے میں فردیں جو لحافی ہیں
عقلوں کو بنا دے گا، دیوانہ جمال ان کا
چھا جائیں گی ہوشوں پر آنکھیں وہ غلافی ہیں
ہم شکر ستم کرتے ، کیوں شکوہ کیا ان سے
آئین محبت کے شیوے یہ منافی ہیں
جھوٹی بھی گورا تہی باقی بھی غنیمت ہے
دو گھونٹ بھی ساقی سے مل جائیں تو کافی ہیں
ہم ان کی جفا سے بھی راضی تھے مگر نا حق
اب ہو کے وہ خود نادم سرگرم تلافی ہیں
جدت میں ہے لاثانی حسرت کی غزل خوانی
کیا طرفہ مطالب ہیں، کیا تازہ قوانی ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |