ہم غلط احتمال رکھتے تھے
ہم غلط احتمال رکھتے تھے
تجھ سے کیا کیا خیال رکھتے تھے
نہ سنا تو نے کیا کہیں ظالم
ورنہ ہم عرض حال رکھتے تھے
نہ رہا انتظار بھی اے یاس
ہم امید وصال رکھتے تھے
جوہر آئینہ نیں دکھلایا
سادہ رو جو کمال رکھتے تھے
نہ سنا تھا کسو نے یہ تو غرور
سبھی دلبر جمال رکھتے تھے
آہ وہ دن گئے کہ ہم بھی اثرؔ
دل کو اپنے سنبھال رکھتے تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |