ہم نشیں ان کے طرف دار بنے بیٹھے ہیں
ہم نشیں ان کے طرف دار بنے بیٹھے ہیں
میرے غم خوار دل آزار بنے بیٹھے ہیں
بات کیا ان سے کروں ان کے اٹھاؤں کیوں کر
مدعی بیچ میں دیوار بنے بیٹھے ہیں
ناتوانی نے ادھر پاؤں پکڑ رکھے ہیں
وہ نزاکت سے گراں بار بنے بیٹھے ہیں
کیا بری شے ہے محبت بھی الٰہی توبہ
جرم ناکردہ خطاوار بنے بیٹھے ہیں
بے وفائی کے گلے جن کے ہوئے تھے کل تک
آج دنیا کے وفادار بنے بیٹھے ہیں
وہ ہیں اور غیر ہیں اور عیش کے سامان ظہیرؔ
ہم الگ سب سے گنہ گار بنے بیٹھے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |