ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں

ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں
by منتظر لکھنوی
315675ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیںمنتظر لکھنوی

ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں
تیری دہشت کے مارے مرتے ہیں

مار مت بے مروتی سے انہیں
جو مروت کے مارے مرتے ہیں

شکوہ کیا کیجے شام غربت کا
اپنی شامت کے مارے مرتے ہیں

کیا رقیبوں کو ماریے وہ آپ
سب رقابت کے مارے مرتے ہیں

یار سے دور ہیں وطن سے جدا
اس مصیبت کے مارے مرتے ہیں

سیکڑوں اس سے ہیں گے ہم آغوش
لاکھوں حسرت کے مارے مرتے ہیں

کچھ ہماری نہ پوچھئے صاحب
ہم تو غیرت کے مارے مرتے ہیں

ہے عجب زیست منتظرؔ ان کی
جو کہ الفت کے مارے مرتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.