ہم نہ چھوڑیں گے محبت تری اے زلف سیاہ
ہم نہ چھوڑیں گے محبت تری اے زلف سیاہ
سر چڑھایا ہے تو کیا دل سے گرائیں تجھ کو
چھوڑ کر ہم کو ملا شمع رخوں سے جا کر
اسی قابل ہے تو اے دل کہ جلائیں تجھ کو
درد دل کہتے ہوئے بزم میں آتا ہے حجاب
تخلیہ ہو تو کچھ احوال سنائیں تجھ کو
اپنے معشوق کی سنتا ہے برائی کوئی
کیوں نہ ہم بگڑیں جو اغیار بنائیں تجھ کو
روٹھتا ہوں جو کبھی میں تو یہ کہتا ہے وہ شوخ
کیا غرض ہم کو پڑی ہے جو منائیں تجھ کو
تو نے اغیار سے آئینہ منگا کر دیکھا
دل میں آتا ہے کہ اب منہ نہ دکھائیں تجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |