ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے
ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے
لیکن کبھو نہ دیکھا کیتا ہے اور کہاں ہے
ڈھونڈا ہزار تو بھی تیرا نشاں نہ پایا
لشکر میں گل رخاں کے تیری مثل کہاں ہے
اب تشنگی کا روزہ شاید کھلے ہمارا
شام و شفق سجن کا مسی و رنگ پاں ہے
دل میں کیا ہے دعوا انکھیاں ہوئی ہیں منکر
تیری کمر کا جھگڑا ان دو کے درمیاں ہے
رہتا ہوں اے پیارے قدموں تلے تمہارے
جس راہ آوتے ہو عاجز کا وہیں مکاں ہے
تجھ خط پشت لب میں تس کا سخن ہوا سبز
اس کی زباں دہن میں مانند برگ پاں ہے
پیری سیں قد کماں ہے ہر چند آبروؔ کا
اس نوجواں کی خاطر دل اب تلک کشاں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |