ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں
ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں
پر نہیں اے ہم صفیرو! اپنے بس کی تیلیاں
بہر ایواں اور بنوا چلمن اے پردہ نشیں
ہو گئی بد رنگ ہیں اگلے برس کی تیلیاں
خاک میں نا جنس رہتے ہیں نہ اہل امتیاز
اے فلک بنتی نہیں جاروب خس کی تیلیاں
عین فصل گل میں ہی صیاد بے پروا نے آہ
دس کے پر کترے تو کیں آنکھوں میں دس کی تیلیاں
حرص دنیا چاہتی ہے یہ کہ سیم و زر کی ہوں
یہ چراغ خانۂ اہل ہوس کی تیلیاں
امتیاز نیک و بد خود ہو نہ جس کو اے نصیرؔ
اس کے نزدیک ایک ہیں خاشاک و خس کی تیلیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |