ہم کب از خود ترے گھر یار چلے آتے ہیں
ہم کب از خود ترے گھر یار چلے آتے ہیں
رہ نہیں سکتے تو ناچار چلے آتے ہیں
لے خبر اس کی شتابی سے کہ عاشق کو ترے
غش پہ غش شوخ ستم گار چلے آتے ہیں
میں تو حیراں ہوں مطب ہے کہ در یار ہے یہ
یاں تو بیمار پہ بیمار چلے آتے ہیں
گھر میں گھبراتے ہیں بے یار تو ہم وحشی سے
سر برہنہ سر بازار چلے آتے ہیں
کھڑے رہ سکتے نہیں در پہ تو حیران سے واں
بیٹھ کر ہم پس دیوار چلے آتے ہیں
کس کے نالوں کی یہ آندھی ہے کہ شکل پر کاہ
آج اڑتے ہوئے کہسار چلے آتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |