ہم کو ہے جس کی طلب وہ یار ملتا ہی نہیں
ہم کو ہے جس کی طلب وہ یار ملتا ہی نہیں
دل چرا کے لے گیا دل دار ملتا ہی نہیں
میری جانب سے خدا جانے عدو نے کیا کہا
اس قدر جو ہو گیا بیزار ملتا ہی نہیں
زلف جاناں کی بلائیں لوں کبھی رخ پر نثار
کاش مل جائے کہیں اک بار ملتا ہی نہیں
ملتا جلتا رہتا تھا ہر وقت وہ اب تو عزیزؔ
آہ ایسی ہو گئی تکرار ملتا ہی نہیں
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |