ہم گرچہ دل و جان سے بیزار ہوئے ہیں
ہم گرچہ دل و جان سے بیزار ہوئے ہیں
خوش ہیں کہ ترے غم کے سزا وار ہوئے ہیں
اٹھے ہیں ترے در سے اگر صورت دیوار
رخصت بھی تو جوں سایۂ دیوار ہوئے ہیں
کیا کہئے نظر آتی ہے کیوں خواب یہ دنیا
کیا جانیے کس خواب سے بیدار ہوئے ہیں
آنکھوں میں ترے جلوے لیے پھرتے ہیں ہم لوگ
ہم لوگ کہ رسوا سر بازار ہوئے ہیں
کچھ دیکھ کے پیتے ہیں لہو اہل تمنا
مے خوار کسی بات پہ مے خوار ہوئے ہیں
زنجیر حوادث کی ہے جھنکار بہر گام
کیا جرم کیا تھا کہ گرفتار ہوئے ہیں
اظہار غم زیست کریں کیا کہ ظفرؔ ہم
وہ غم ہیں کہ شرمندۂ اظہار ہوئے ہیں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |