ہم ہیں بے دل دل اپنے پاس نہیں
ہم ہیں بے دل دل اپنے پاس نہیں
آہ اس کا بھی تجھ کو پاس نہیں
بے وفا کچھ نہیں تری تقصیر
مجھ کو میری وفا ہی راس نہیں
قتل میرا ہے تیری بد نامی
جان کا ورنہ کچھ ہراس نہیں
تو ہی بہتر ہے ہم سے آئینے
ہم تو اتنے بھی روشناس نہیں
یوں خدا کی خدائی برحق ہے
پر اثرؔ کی ہمیں تو آس نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |