ہندوستانی صنعت فلم سازی پر ایک نظر
۱۹۱۳ء میں مسٹر ڈی جی پھالکے نے ہندوستان کا پہلا فلم بنایا اور اس صنعت کا بیج بویا۔ دادا پھالکے نے آج سے پچیس برس پہلے اپنی دھرم پتنی کے زیورات بیچ کر جو خواب دیکھا تھا ان کی نگاہوں میں یقیناً پورا ہو گیا ہوگا، مگر وہ خواب جو ملک کے ترقی پسند نوجوان دیکھ رہے ہیں، ابھی تک ان کی تعبیر عملی شکل میں نظر نہیں آئی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ملک کی اس لطیف صنعت کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جن کے دل و دماغ پر بڑھاپا طاری ہے، جو صرف گرد و بیش کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے مطمئن ہو جاتے ہیں اور جن کو آگے بڑھنے کی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ کسی صنعت کو بامِ رفعت تک پہنچانے کے لئے ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی، جن کا تخیل زنگ آلود ہو اور جن کی زندگی ٹھہرا پانی بن کر رہ گئی ہو۔
نوجوانانِ وطن
جن کی میں نمائندگی کر رہا ہوں، ملک کے وہ نوجوان جو سازِ حیات کے ہر تار کو چھیڑ کر نغمے پیدا کرنا چاہتے ہیں، وطن کے وہ نوجوان جو بلندیوں میں پرواز کرنا چاہتے ہیں، ہندوستان کے باغ کے وہ پرندے جو اپنے کترے ہوئے پروں کے باوجود اڑنا چاہتے ہیں۔ اپنے ملک کی اس صنعت کی موجودہ رفتار سے مطمئن نہیں۔ وہ بے عقل بچے سہی، تجارتی رازوں سے ناواقف سہی، مفلس سہی لیکن جو تڑپ ان کے سینے میں ہے، جو خواہش ان کے دل میں کروٹیں لیتی ہے، جو اضطراب ان کے تمتماتے ہوئے چہروں پر کھیلتا ہے، یقیناً قابل احترام ہے اور تمام وزنی جیبوں والے سرمایہ داروں کو جو انڈین موشن پکچر کانگرس میں اپنی تجوریوں کی نمائش کرنے آئے تھے، ایک سیکنڈ کے لئے احتراماً ملک کے ان پاگل لونڈوں کے دیوانے جذبے کے آگے سر جھکا دینا چا ہیئے تھا۔
ہندوستان کے ان ترقی پسند نوجوانوں کو بیمار کہا جاتا ہے۔۔۔ وہ بیمار ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، پر یہ بیماری وہ عشق ہے جو ان کو اپنے وطن کے ذرّے ذرّے سے ہے۔ ان کو دیوانہ کہا جاتا ہے، وہ دیوانے ہیں، ا س لئے کہ وہ اپنے وقت کے قائدین کی ہوشمندی سے مطمئن نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے وطن کے رتھ میں سب کے سب جت کر اسے اس مقام پر پہنچا دیں، جہاں دوسرے ملک کھڑے ہیں اور اس کے لئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ سرمایہ داروں کے ہر کھنکھناتے ہوئے سکے کے مقابلے میں وہ اپنی جوان رگوں کا چمکیلا خون پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ دیوانہ پن ہے، مگر اس دیوانگی کا احترام کرنا چا ہیئے۔ ہندوستان کی ہوشمندی، متانت اور سنجیدگی، ٹھٹھرے ہوئے بدن کو گرمانے کے لئے دیوانگی کی اس آگ کی ہر وقت ضرورت ہے۔
ہمیں اچھے فلم چاہئیں
میں ایسے بلند فلم چاہئیں، جو ہم غیر ممالک کے فلموں کے مقابلے میں پیش کر سکیں۔ ہم لوگوں کو یہ خبط ہے، اس بات کی دیوانگی ہے کہ ہمارے وطن کی ہر شے دوسروں کے مقابلے میں اچھی ہو۔ یہ خبط ہماری زندگی کی اصل گرمی ہے اور ہم اس گرمی کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ انقلاب سے پہلے روس کے حالات ہندوستان سے بدتر تھے، روس میں ادب اور شاعری کا نام و نشان تک نہ تھا، مگر اس نے ایک نہایت ہی قلیل عرصے میں ولی پیدا کئے۔ میرؔ اور غالبؔ پیدا کئے۔ صنعت فلم سازی میں بھی ان کی ترقی قابل رشک ہے۔ روس نے ایسے ایسے ڈائریکٹر پیدا کئے ہیں کہ ان پر فکر انسان ہمیشہ بجا طور پر نازاں رہے گا۔ پر ہمارے ملک نے ان پچیس برسوں میں جن کے نو ہزار ایک سو پچیس دن ہوتے ہیں، کیا کیا ہے؟
کیا ہم ان پچیس برسوں کا حاصل ان ڈائریکٹروں کی شکل میں پیش کر سکتے ہیں، جو اپنے فلموں کا منہ مانگے ہوئے لقموں سے بھرتے ہیں؟ کیا ہم ان افسانہ نویسوں پر تھوڑی دیر کے لئے بھی فخر کر سکتے ہیں جو دوسروں کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں پر ٹیڑھی بنگی لکیریں کھینچتے ہیں؟ کیا ہم ان فلموں کو دوسرے ممالک کے فلموں کے مقابلے میں پیش کر سکتے ہیں، جو امریکی فلموں کی ہزارویں کاربن کاپی معلوم ہوتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہندوستان میں ٹھیٹ ہندوستانی فلم بننے چاہئیں۔ ہمارے وہ سوشل فلم جو آج کل سیکڑوں کی تعداد میں سینماؤں کے پردوں پر چلتے ہیں، کیا ہندوستانی تہذیب کے آئینہ دار ہیں؟ اس کا جواب موٹے قلم سے یہ ہونا چا ہیئے۔ ’’نہیں!‘‘ آپ ان فلموں میں کبھی ’’ہندوستانیت‘‘ کو امریکی لباس میں دیکھتے ہیں اور کبھی امریکی دھوتی کرتے میں نظر آتا ہے، جو بے حد مضحکہ خیز ہے، ان کو سوشل فلم کہا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح ہر ایکٹر خود کو آرٹسٹ کہتا ہے۔
ہندوستان میں ابھی تک آرٹسٹ کے صحیح معانی پیش نہیں کئے گئے۔ آرٹ کو خدا معلوم کیا چیز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں آرٹ ایک رنگ سے بھرا ہوا برتن ہے جس میں ہر شخص اپنے کپڑے بھگو لیتا ہے، لیکن آرٹ یہ نہیں ہے اور نہ وہ تمام لوگ آرٹسٹ ہیں جو اپنے ماتھوں پر لیبل لگائے پھرتے ہیں۔ ہندوستان میں جس چیز کو آرٹ کہا جاتا ہے، ابھی تک میں اس کے متعلق فیصلہ نہیں کر سکا کہ کیا ہے؟ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں جن دو لفظوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے، ان میں سے ایک آرٹ یا آرٹسٹ ہے اور دوسرا شاہکار۔ ڈائریکٹر سے لے کر اسٹوڈیو میں تختے ٹھونکنے والے مزدور تک سب کے سب آرٹسٹ ہیں۔ ’’ہریش چندر‘‘ سے لے کر ’’ستارہ‘‘ تک جتنے فلم بنے ہیں، سب کے سب شاہکار ہیں۔ اس سے یہ ہوا ہے کہ آرٹ اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھا ہے اور شاہکار شاہکار نہیں رہا۔
فلم اور پروڈیوسر
ہندوستانی صنعت فلم سازی کی دگرگوں حالت کے متعلق آئے دن اخبارات اور رسائل میں تبصرے شائع ہوتے رہتے ہیں مگر پریس کی اس آواز سے ملک کی اس صنعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے اکثر و بیشتر اخبارات کے پیش نظر ترفیع صنعت کے جذبے کے بجائے جلب منعفت ہے۔ اس میں ایسے اخباروں اور اخبار نویسوں کا کوئی قصور نہیں، جن کے کاغذ اور جن کے قلم پروڈیوسروں کی میزانوں میں تلتے ہیں۔ در اصل ہر شخص کساد بازاری کے اس زمانے میں کسی نہ کسی حیلے سے اپنی روزی کمانا چاہتا ہے اور جب فلمی دنیا میں فلمی خداؤں کے آگے سر جھکانے سے چاندی کے سکے مل جاتے ہیں تو کورنشوں کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
ہندوستان میں سیکڑوں کی تعداد میں اخبارات و رسائل چھپتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صحافت اس سرزمین میں ابھی تک پیدا نہیں ہوئی، اگر ایسا ہوتا تو آج ہمیں متذکرہ صدر الفاظ میں اپنی کمزوریوں کا اظہار نہ کرنا پڑتا۔ صحافت اپنی فطری شکل خود بخود اختیار کرے گی جب ہمارے ملک سے جہالت دور ہو جائے گی اور جہالت صرف اسی صورت میں دور ہو سکتی ہے جب دانش گاہوں کے سب دروازے عوام پر کھول دیے جائیں گے۔
عوام کو تعلیم یافتہ بنانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ان سب میں سے فلم کو متفقہ طور پر بہت بااثر تسلیم کیا گیا ہے۔ سیلولائڈ کے فیتے کے ذریعے سے ہم پبلک تک اپنا پیغام بطریق احسن پہنچا سکتے ہیں۔ نصاب کی بھاری بھر کم کتابیں طلبا کے سینے پر بوجھ بن کر رہ جاتی ہیں، اسکول کے اوقات تعلیم میں ہمارے اکثر بچے دل سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے، لیکچر کالج کے بعض لڑکے لڑکیوں کے دماغ پر اثر کرنے کے بجائے ان کے اعصاب پر اثرانداز ہوتے ہیں، مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ فلم سے بددلی کا اظہار بہت کم کیا جاتا ہے۔ جو بات مہینوں میں خشک تقریروں سے نہیں سمجھائی جا سکتی، چٹکیوں میں ایک فلم کے ذریعے سے ذہن نشین کرائی جا سکتی ہے۔
فلم کے عالمگیر اور ہمہ رس اثر کے پیش نظر ہمارا خیال ہے کہ ہندوستانی عوام کے اذہان کو بیدار کرنے کے لئے ایسے فلموں کی ضرورت ہے جو کوئی نئی بات سکھائیں اور جن کو دیکھ کر تماشائی تفریح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سینما ہال سے باہر نکلتے وقت اپنے دماغوں کی آغوش میں غوروفکر کے جراثیم بھی لیتے جائیں۔ جس طرح جسمانی صحت برقرار رکھنے کے لئے کسرت کی ضرورت ہے، ٹھیک اسی طرح ذہن کی صحت برقرار رکھنے کے لئے ذہنی ورزش کی ضرورت ہے۔
مقام تاسف ہے کہ ہمارے فلمی پروڈیوسروں کے پیش نظر سوائے تجارت کے اور کچھ بھی نہیں۔ یہ درست ہے کہ تاجروں کو صرف حصولِ زر سے مطلب ہوتا ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں، مگر ہم کور ذوقی اور پست مذاقی کا گلہ کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہمارے اکثر پروڈیوسر اپنے نگار خانوں میں تیسرے درجے کی فلم بنا کر پردے پر پیش کرتے ہیں۔ صرف اس خیال سے کہ اس قسم کے لچر فلم پبلک کی جیبوں سے زیادہ رقم وصول کر سکتے ہیں۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ مذاق پیدا کیا جاتا ہے، خود بخود پیدا نہیں ہوتا، اگر پبلک میں پست مذاقی کے لوگ موجود ہیں تو اس کے ذمہ دار ہمارے پروڈیوسر ہیں جو مذاق کو پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔
جادو کے لایعنی قصے اور پریوں کی فرضی کہانیوں میں اتنی دلچسپی نہیں ہے جتنی کہ ہمارے پروڈیوسر سمجھتے ہیں۔ پبلک ایسے فلم چاہتی ہے جن کا تعلق براہ راست ان کے دل سے ہو۔ جسمانی حسیات سے متعلق چیزیں زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں مگر جن چیزوں کا تعلق روح سے ہوتا ہے، دیر تک قائم رہتی ہیں۔ ماسٹر وٹھل کے اسسٹنٹ تماشائیوں کے ذہن سے بالکل نکل چکے ہیں۔ اب وہ روحانی خوراک کے لئےخالی ہیں۔
ہمیں اس وقت ایسے فلم درکار ہیں، جو ہمیں کچھ سکھائیں۔ ایسے فلم نہیں چاہئیں جو ہمیں سب کچھ بھلا دیں، جو ہمارے اذہان کو زنگ آلود کر دیں۔ ہمیں اپنی زبان سے پیار کرنا سکھایا جائے، ہمیں اپنے وطن سے پیار کرنے کا سبق دیا جائے، ہمیں محبت کے حقیقی معنوں سے آشنا کرایا جائے، ہمارے سامنے کتاب انسانیت کے اوراق کھولے جائیں۔ کیا ہمارے پروڈیوسر ایسا نہیں کر سکتے؟ کیا وہ اپنی تجارت کو ہماری مانگ کے ساتھ ساتھ اور زیادہ نہیں بڑھا سکتے۔
اختصار کی ضرورت
ہمارے یہاں خاموش فلموں کے زمانے سے لے کر اب تک جتنے فلم بنے ہیں، ان کی غیر معمولی طوالت دیکھ کر خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہمارے پروڈیوسر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پبلک غیر معمولی طور پر لمبے فلم پسند کرتی ہے۔ ممکن ہے اس میں کچھ صداقت ہو۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ایسے طول طویل فلموں کی نمائش سے جہاں صنعت فلم سازی کی ترفیع میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے، وہاں تماشائیوں کے اذہان پر بھی اس کا برا اثر پڑ رہا ہے۔ آج کل وہ زمانہ ہے جس میں اختصار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ کم سے کم وقت میں مطلب حل کرنا آج کل ہر شخص کے پیش نظر ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں کے فلموں میں جو بات سات یا آٹھ ہزار فٹ سیلولائڈ میں کہی جا سکتی ہے، اسے پندرہ یا سولہ ہزار فٹ لمبے فیتے میں پھیلا دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے۔
ایک افسانے کو جس کے سارے ابواب آٹھ ہزار فٹ لمبے فلم میں سما سکتے ہیں اگر ربڑ کی طرح کھینچ کر سولہ ہزار فٹ لمبا بنا دیا جائے گا تو اس میں وہ بات نہ رہے گی جو اس کی فطری طوالت میں تھی۔ افسانے کی حدود سے جو کوئی باہر نکلنے کی کوشش کرے گا، اچھا افسانہ گو نہیں بن سکتا۔ جس طرح ربڑ کا فیتہ ایک خاص حد تک کھینچا جا سکتا ہے، اسی طرح افسانے بھی ایک خاص حد تک کھینچ کر بڑے کئے جا سکتے ہیں اور اگر ہم اس حد سے گزر جائیں گے تو بیچارے افسانے کی ساری ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ جائیں گی اور سب کا سب منتشر ہو جائے گا۔
غیر فطری طور پر لمبی فلم میں ڈائریکٹر خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، افسانے کو اپنے محور پر قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ فلم طویل ہوگا تو اس میں قدرتی طور پر ڈائیلاگ بھی لمبے لمبے ہوں گے اور ایکٹر ان کی ادائیگی میں یک آہنگی برتنے لگیں گے۔ فلم طویل ہوگا تو اس کے حادثات اور واقعات بھی طویل ہوں گے۔ جس کے باعث فلم کی رفتار میں لنگڑا پن پیدا ہو جائے گا، جو آنکھوں کو بہت برا معلوم ہوگا۔ طویل فلم کی تیاری میں زیادہ سیٹنگ استعمال ہوتے ہیں۔ جن پر کافی روپیہ خرچ آتا ہے۔ اس طرح وہ فلم جو اپنی صحیح شکل میں ساٹھ یا ستر ہزار روپے میں بن سکتا ہے، ایک لاکھ روپے میں تیار ہوگا اور ناکام رہنے کی صورت میں پروڈیوسروں کی کمر توڑ کے رکھ دے گا۔
طویل فلم میں دلچسپی کا عنصر داخل کرنے کے لئے پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کو بے موقعہ اور بے محل گیت گوانے اور ناچ نچوانے پڑتے ہیں، جو فلم کو خوبصورت بنانے کے بجائے نہایت بھدا بنا دیتے ہیں۔ روپیہ خرچ ہوتا ہے مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اس کا باعث صرف یہ حقیقت ہے کہ ہر شے کے لئے ایک مناسب و موزوں جگہ ہوتی ہے، جس سے ہٹ کر وہ اپنی تمام خوبصورتی کھو دیتی ہے۔ تماشائیوں کو اگر ایسے طویل فلموں کا عادی بنا دیا گیا تو ان کے اذہان میں طوالت پسندی گھر کر جائے گی اور وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی اس عادت کو داخل کرنے کی کوشش کریں گے۔ جس کے نتائج بہت تنزل آفریں ثابت ہوں گے۔
متذکرہ صدر امور کے پیشِ نظر یہ ضروری ہے کہ ہمارے پروڈیوسر اپنے فلموں کی تیاری میں اختصار سے کام لیں۔ آج کل سولہ سترہ ہزار فٹ لمبے پر جو کچھ وہ خرچ کر رہے ہیں، اگر وہی کچھ اس سے نصف طویل فلم پر خرچ کیا جائے تو ملک کی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور ان لوگوں کی تمام شکایتیں دور ہو سکتی ہیں، جو اس وقت ہمارے فلموں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
سینما ہال میں تماشائیوں کے لئے دو گھنٹہ کا پروگرام پیش کرنے کے لئے ہمارے پروڈیوسروں کو ان خطوط پر چلنا چاہیئے، جو ہالی ووڈ کے پروڈیوسروں کے پیش نظر ہیں۔ سات آٹھ ہزار فٹ لمبے فلم کے ساتھ کارٹون یا خبروں کے ایک چرخے یا دو چرخے فلم تیار کئے جائیں جیساکہ یورپ میں کئے جاتے ہیں۔ اس طرح پبلک جہاں قصے کہانیاں سنے گی اور دیکھے گی، وہاں دوسرے ممالک کے تازہ ترین حالات سے باخبر بھی رہے گی۔ ان لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا۔ اپنے ہمسایہ ممالک سینما ہال میں بیٹھے بیٹھے دیکھ لیں گے اور ان کے دل سے وہ تعجب دور ہو جائے گا جو عام طور پر فاصلہ پیدا کر دیا کرتا ہے۔ بیس پچیس سال تک ہم طول طویل فلم دیکھتے رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس بدعت کا خاتمہ کر دیا جائے اور بھاری بھر کم اور شیطان کی آنت کی طرح لمبے فلموں کے بجائے ایسے مختصر فلم پیش کئے جائیں جو ہمارے دماغوں پر وزن نہ ڈالیں۔ وطن کی اس صنعت کو رفعت بخشنے کے لئے اختصار کی بے حد ضرورت ہے۔
ستارے یا ستارہ شناس
تیس برس سے ہالی ووڈ کے اربابِ فکر اس بات کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلم سازی میں اسٹار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے یا خود فلم کو۔ اس مسئلے پر اس قدر بحث کی جا چکی ہے کہ اب اس کے تصور ہی سے الجھن ہونے لگتی ہے۔ آخر متذکرہ صدر سوال کا فیصلہ کن جواب کیا ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے یہ سوال سن کر یوں کہہ دیا جائے، ’’کیا فرمایا آپ نے؟‘‘ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا؟ اگر اس کا جواب کچھ ہو سکتا ہے تو یقیناً اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ اسٹار زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا خود فلم۔
فرینک کیپرا کولمبیا
فلم کمپنی کے ماہرِ فن ڈائریکٹر نے حال ہی میں اس مسئلے پر اپنے افکار انگریزی اخبارات میں شائع کئے ہیں۔ مسٹر کیپرا کہتے ہیں، ’’میں ان لوگوں کا ہم خیال ہوں جو فلم کو سب سے اہم سمجھتے ہیں۔ فلم، اسٹار بناتے ہیں اور درخشاں سے درخشاں ستارہ کمزور یا برے فلم کو ناکامی سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ تجربے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فلم ستارہ ساز ہے اور ستارے کمزور فلم کو تابانی نہیں بخش سکتے، مگر ہمارے یا مسٹر کیپرا کے خیال سے سب متفق نہیں ہو سکتے۔ ایسے سیکڑوں اصحاب موجود ہوں گے جو اپنے نظریے کے جواز میں اور مسٹر کیپرا کے نظریےکے ابطال میں ٹھوس دلائل و براہین پیش کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ستارے کیوں کر بنتے ہیں یا وہ کون سی چیز ہے جو ستارے بناتی ہے؟
مسٹر کیپرا نے اس سوال کا جواب نہایت دلچسپ انداز میں دیا۔ آپ کہتے ہیں، ’’اگر دنیا کے تمام پروڈیوسر اپنا سرمایہ جمع کر کے میرے حوالے کر دیں (جو یقیناً کافی و وافی ہوگا) اور مجھ سے یہ کہیں کہ ہمارے فلمی آسمان کے لئےتین ستارے چن کر لا دو، تو میں یقیناً خالی الذہن ہو جاؤں گا۔ ا س لئے کہ مجھے وہ جگہ معلوم ہی نہیں۔ جہاں سے یہ ستارے مل سکتے ہیں۔‘‘
خاموش فلموں کے زمانے میں ہالی ووڈ کے آسمان فلم کے لئےستارے عام طور پر ہوٹلوں، کارخانوں اور دفتروں وغیرہ سے آتے تھے، لیکن اب کہ فلموں کی خاموشی تکلم میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس صنعت کو کافی فروغ حاصل ہو چکا ہے۔ ستاروں کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے یہاں صنعت فلم سازی کے آغاز میں قحبہ خانے تھیٹر اور چکلے ستارے مہیا کیا کرتے تھے اور اب کہ ہماری صنعت کو کسی قدر فروغ حاصل ہوا ہے، علمی طبقے نے بھی ہمارے فلمی آسمان کے لئے ستارے پیش کرنے شروع کئے ہیں اور مستقبل بعید یا مستقبل قریب میں ایک ایسا وقت آئے گا، جب ہالی ووڈ کی طرح یہاں بھی ستاروں کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ مگر ہم یہ سوچ رہے تھے کہ وہ کون سی شے ہے جو ستارے بناتی ہے؟
مسٹر فرینک کیپرا کی (جن کی ڈائریکشن میں ہالی ووڈ کے بڑے بڑے نامور ستارے کام کر چکے ہیں) رائے ہے کہ کرداروں کی صحیح تقسیم (یعنی موزوں و مناسب کاسٹ) ستارے بناتی ہے۔ ان کے نظریے کے اعتبار سے چینی آدمی کا روپ صرف چینی ہی بطریق احسن دھار سکتا ہے اور لنگڑے یا کبڑے آدمی کا پارٹ صرف لنگڑا یا کبڑا آدمی ہی خوبی سے ادا کر سکتا ہے۔ ہمیں مسٹر کیپرا کے اس نظریے سے اتفاق ہے۔ اسکرین پر کسی کیریکٹر کی ادائیگی کے لئے اتنا ہی زیادہ انہیں کامیابی کا موقع ملے گا، جس آسانی سے ہم اور آپ اپنے آپ یعنی اپنے اصل کو پیش کر سکتے ہیں۔ اس آسانی سے ہم کسی اور کی نقل نہیں کر سکتے جہاں تصنع اور بناوٹ کو دخل ہوگا وہاں اصلیت برقرار نہیں رہ سکتی۔
اس نظریے کے جواز میں مسٹر فرینک کیپرا نے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، جن میں سے ایک گیری کو پرکی ہے۔ آپ کہتے ہیں، گیری کوپر اسکرین پر اپنے آپ کو اصلی رنگوں میں پیش کرتا ہے اور چونکہ وہ ایک خوش ذوق، عالی خیال اور صاحب فہم انسان ہے، اسی لئے وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہتا ہے۔
ہم یہ کہہ رہے تھے کہ موزوں و مناسب کاسٹ ستارے بناتی ہے، مگر یہ قطعی اور آخری فیصلہ نہیں ہے۔ ا س لئے کہ صرف کاسٹ کا موزوں و مناسب ہونا ہی کسی فلم کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔ فلم کی کامیابی کے لئے اور بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے جن کو آپ بخوبی سمجھتے ہوں گے۔ مختصر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب تک مشینری کے سب پرزے اپنی اپنی جگہ پر اچھا کام نہ کریں گے، فلم کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کرداروں اور ٹیکنیشینوں کا باہمی اتحاد پکچر کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ جس طرح قیمتی سے قیمتی گھڑی ایک ٹک کرنے سے بھی انکار کر دیتی ہے، ا س لئے کہ اس کے کسی پرزے کے ساتھ میل کا ایک ننھا سا ذرہ چمٹا ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح قیمتی سے قیمتی فلم، ایک حقیر اور معمولی سی فروگزاشت یا غلطی کے باعث فیل ہو جاتے ہیں۔ صحیح کاسٹ ستارے بنانے میں دیگر عناصر سے کہیں زیادہ ممد و معاون ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے غورو فکر کے بعد یقیناً ہمارے ہم نوا ہو جائیں گے، چنانچہ فلموں کو کامیاب بنانے اور ستارے پیدا کرنے کے لئے ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے۔
اہل طرز ڈائریکٹر
ہندوستانی فلموں کی بے جانی کا سب سے بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اہلِ طرز یعنی اسٹائلسٹ ڈائریکٹروں کی کمی ہے۔ افسانہ نگاری اور شعر گوئی کے لئے ایک اسٹائل کی ضرورت ہے جو ادب کے جملہ لوازما ت میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹائل ہی ایک افسانہ نگار کی کہانی کو دوسرے قصہ نویس کے افسانے کے مقابلے میں ایک جداگانہ حیثیت بخشتا ہے۔ اسی طرح فلموں کے ڈائریکٹر کے لئے اسٹائل کی بہت ضرورت ہے، اگر ڈائریکٹروں کا اپنا اپنا اسٹائل نہ ہوگا تو فلم متحرک تصاویر کے یک آہنگ فیتے بن کر رہ جائیں گے۔
ہندوستانی فلم ایک عرصے سے سکرین پر پیش ہو رہے ہیں۔ ان میں سے گنتی کے چند فلم ایسے ہیں، جن میں ہمیں ڈائریکٹروں کا اسٹائل نظر آتا ہے۔ اسی اسٹائل کے ذریعہ سے ہم ان کے تشخص کے بارے میں کچھ جان سکے ہیں، مگر دوسرے فلم دیکھ کر ہمیں ایک ہی طریقے سے جوڑی ہوئی اور ایک ہی نگاہ سے دیکھی ہوئی چیزیں نظر آتی ہیں۔ ان کے مشاہدے سے ہم صرف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پبلک کی مانگ پر پروڈیوسروں نے چند نااہل ڈائریکٹر پکڑ کر اپنے سیلولائڈ کے اوپر بے معنی نقش بنوا لئے ہیں، جن کو نہ وہ خود سمجھ سکے اور نہ پبلک ہی سمجھ سکی۔
ہندوستان میں روزانہ سیکڑوں فلموں کی نمائش ہوتی ہے، مگر مقام تاسف ہے کہ ان میں سے بہت کم فلم، فلم ہوتے ہیں۔ در اصل جو ڈائریکٹر یہ فلم تیار کرتے ہیں، تخیل سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ وہ اسٹوری کو سامنے رکھ کر صرف کلوز اپ، مڈ شاٹ اور لانگ شاٹ میں کیمرہ رکھنے کا حکم دینا جانتے ہیں اور بس وہ کیمرے کو ہیروئن کے چہرے کے قریب بار بار لے آتے ہیں، مگر ان کو کلوز اپ کی اہمیت قطعی طور پر معلوم نہیں ہوتی۔ ایسے ڈائریکٹر ان نام نہاد ادیبوں کے مترادف ہیں جو بے ربط عبارت لکھتے ہیں اور جنہیں الفاظ کی نشست و برخواست کا کوئی سلیقہ نہیں ہوتا۔
ارنسٹ کیوبش کا فلم اگر اس کے نام کے بغیر پردے پر آئے تو آپ اس میں ٹھوس مزاح کے ٹچ اور معمولی سی معمولی اشیاء کے موزوں و مناسب استعمال کو دیکھ کر فوراً کہہ دیں گے، ارنسٹ کیوبش پردے پر چل پھر رہا ہے، دلکش بیرونی مناظر اور پھولوں میں ہیروئن کو تیتری کی طرح پھڑ پھڑاتا دیکھ کر آپ کو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ پردے کے پیچھے ڈی، ڈبلیو گرفتھ کا دل دھڑک رہا ہے، جو نیچر کی سحرکاریوں کا دلدادہ ہے۔ اسی طرح ایرک خان مسٹر اہیم کی حقیقت پسندی چھپائے نہیں چھپ سکتی۔ اس جواز میں اور بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
ہالی وڈ کے قریب قریب ہر ڈائریکٹر کا ایک طرز یا اسٹائل ہے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے، مگر یہاں ہندوستان میں اہل طرز ڈائریکٹروں کا فقدان ہے۔ اس وقت صرف دو ڈائریکٹر ایسے ہیں، جنہیں صاحب طرز کہا جا سکتا ہے۔ دیو کی بوس اور شانتا رام، دیو کی بوس کی مثالیت ہی ایک ایسی چیز ہے، جو اسے دوسرے ڈائریکٹروں پر امتیاز بخشتی ہے۔ راج رانی میرا، پورن بھگت، آفٹر دی ارتھ کوئیک اور ودیاپتی میں آپ دیو کی بوس۔۔۔ خواب دیکھنے والے دیو کی بوس کو سیلو لائڈ کے ہرانچ میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کا اسٹائل اوریجنل ہے اور اسی وجہ سے وہ کامیاب ہے۔
اشاریت اور عظمت پسندی
شانتا رام کے اسٹائل کے دو بڑے جزو ہیں، جس فلم میں بھی آپ یہ دو چیزیں پہلو بہ پہلو دیکھیں گے، آپ کا خیال فوراً پربھات فلم کمپنی کے شانتا رام کی طرف چلا جائے گا۔ وہ اپنے اسٹائل میں اور کوئی ثانی نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے کہ اسے ہندوستان کے ڈائریکٹروں کی صف اول میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ نیتن بوس کے نام کا یہاں ا س لئے ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ اہل طرز ڈائریکٹر نہیں۔ وہ ایک نہایت اچھا ’’نمائش کار‘‘ ہے۔ اس کو اپنے خیالات اور افکار کی نمائش کرنے کا ڈھنگ بہت اچھی طرح یاد ہے اور یہی اس کی قابل رشک کامیابی کا باعث ہے۔
ایکٹنگ
ایکٹنگ یا کردار نگاری اس فن کا نام ہے، جس کے ذریعے سے مختلف انسانوں کے جذبات و محسوسات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مصوری، سنگ تراشی، شاعری، افسانہ نویسی اور موسیقی کی طرح کردار نگاری کو بھی فنون لطیفہ میں شمار کیا جاتا ہے، گو بعض منکراس سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام لوگ جو روس کے مشہور معلم اخلاق مصنف تالسٹائی کے مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اسٹیج اور اسکرین کو آرٹ کی شاخ تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہوں گے۔ فنون لطیفہ کے متعلق تالسٹائی کا نظریہ قریب قریب ہر مفکر کے نظریے سے جداگانہ ہے۔ وہ غایت درجہ حقیقت پسند تھا اور چونکہ اسٹیج اور اسکرین پر حقیقت بہت کم نظر آتی ہے، اسی لئے اس کے نظریے کے مطابق فلم اور اسٹیج پر کھیلے ہوئے ناٹک آرٹ سے بہت دور ہیں۔
اپنا اپنا خیال ہے۔۔۔ کردار نگاری کا فن افسانہ گوئی کی طرح ہبوط آدم سے چلا آ رہا ہے۔ دوسرے کے دل پر بیتے ہوئے واقعات بیان کرنا اور کسی دوسرے قلب کی گہرائیوں کا اظہار کرنا کردار نگاری ہے۔ جب آپ کا چھوٹا بھائی یا کمسن بچہ رات کو سوتے وقت آپ کو بتاتا ہے کہ کس طرح اس کی دادی اماں چوہے سے ڈر کر غسل خانے میں چھپ گئیں اور مارے خوف کے ان کا سارا جسم کانپنے لگا تو اس وقت دراصل وہ ایک ایکٹر کے فرائض ادا کر رہا تھا، اگر اس بچے کی قوت بیان کمزور نہیں اور وہ آپ پر اپنی دادی اماں پر بیتے ہوئے واقعات کو اس طرح بیان کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے سامنے ایک تصویر سی دیکھنے لگتے ہیں اور آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی آپ کی آنکھوں کے سامنے بچے کی دادی اماں فرط خوف سے تھرتھر کانپ رہی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بچہ ایک کامیاب ایکٹر ہے اور اس کے اظہار میں تعدیہ بدرجہ اتم موجود ہے۔
فلموں میں یہی چیز بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں آپ کے چھوٹے بھائی یا کمسن بچے نے صرف اپنے دل کی خواہش کی بنا پر اپنی دادی اماں کی کیفیت بیان کی تھی اور یہاں کئی بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد جمع ہو کر ایک کہانی سن کر کسی کے کہنے پر آپ لوگوں کو سنا دیتے ہیں۔ یہ فرق بظاہر معمولی ہے مگر چونکہ آپ کو بہت سی اندرونی باتیں معلوم نہیں، ا س لئے آپ نہیں جانتے کہ جب آپ کا بچہ یا بھائی اپنی دادی اماں کی داستان سنا رہا تھا تو اس کو اس امر کے لئے کسی اور شخص نے اکسایا نہیں تھا۔ یہ اکساہٹ خود بخود اس کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کے برعکس فلم بنانے سے پہلے ہر ایکٹر کے ہاتھ میں اس کا پارٹ دے دیا جاتا ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کو بطریق احسن نبھائے گا۔
ایک بات اور۔۔۔ بچہ جب اپنی کہانی سنا رہا تھا تو اس وقت اس کے پاس کوئی ہدایت دینے والا موجود نہیں تھا، لیکن جب ایکٹر کسی افسانوی کردار کے جذبات کا چربہ اتارنے لگتے ہیں تو ان کے پاس ایک سے زیادہ ہدایت دینے والے موجود ہوتے ہیں، جو اپنے خیال کے مطابق ان سے کام لیتے ہیں۔ بچے نے جب کہانی سنائی تھی تو اس کی گفتگو اور اس کی جسمانی حرکات کے تسلسل میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی مگر یہاں کیمرے کے زاویے تبدیل کئے جاتے ہیں، روشنی میں کمی یا زیادتی کی جاتی ہے اور پھر ایکٹر کے لئے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اسے ایک خاص حد تک رہ کر اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ اسے جذبات نگاری کے دوران میں مندرجہ ذیل امور پیش نظر رکھنا پڑتے ہیں۔
۱۔ اگر وہ مقررہ جگہ سے ایک انچ بھی ادھر سرک گیا تو کیمرے کی زد سے باہر ہو جائے گا۔
۲۔ اگر اس نے منہ ادھر کو موڑ لیا تو کیمرہ مین اس کے ایکٹنگ کی تصویر میں وہ بات پیدا نہ کر سکے گا، جو اس کے دماغ میں ہے۔
۳۔ اگر اس نے مدھم آواز میں مکالمے کی ادائیگی کی تو اس کی صدا بندی نہ ہو سکے گی۔
اسی قسم کی اور بہت سی مشکلات ایکٹر کے راستے میں حائل رہتی ہیں۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ فلموں کے لئے ایکٹنگ یا کردار نگاری بہت مشکل کام ہے اور اس کے لئے ایک مخصوص ذہن اور جسم کی ضرورت ہے۔ ہالی وڈ میں جو صنعت فلمسازی کا باوا آدم ہے، کردار نگاری کے لئے بڑی چھان بین اور جستجو کے بعد ایسے آدمی تلاش کئے جاتے ہیں جو اپنے اندر ایک اعلیٰ کیریکٹر کی اہلیتیں اور خوبیاں پنہاں رکھتے ہوں۔
اسٹاربنانے کے لئے جو کاوش ہالی وڈ کے پروڈیوسر کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ قریب قریب ہر کمپنی کے چند کارکن مختلف ممالک کی سیاحت میں مصروف رہتے ہیں۔ اس طرح چل پھر کر وہ اپنے نگار خانوں کے لئے تازہ دم ایکٹر فراہم کرتے ہیں، پھر ان کی تعلیم پر بے اندازہ روپیہ صرف کیا جاتا ہے اور جب وہ پردے پر لائے جاتے ہیں تو ایک ہی رات میں ان کی شہرت اکنافِ عالم میں پھیل جاتی ہے۔
ہندوستان میں جب صنعت فلمسازی کا آغاز ہوا تو میراثی، ربابی، طبلچی اور سارنگئے بطور ایکٹر اور بھنگنیں اور طوائفیں بطور ایکٹرس بھرتی کی گئیں۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اس معیار میں کوئی خاص تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ جس مرد کی آواز اچھی ہو اور وہ بازاری قسم کے گانے سریلی آواز میں گا لیتا ہو، اسے کامیاب ایکٹر متصور کر لیا جاتا ہے اور اس کو اسٹار بنا کر سال میں چھ چھ فلم تیار کر دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح عورت میں صرف حسن کو ایکٹنگ کے فن کا بہترین مظہر قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔
ہمارے ملک میں صنعت فلمسازی کی بنیاد چونکہ غلط اصولوں پر رکھی گئی ہے ا س لئے ایکٹنگ کا فن قریب قریب مفقود ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ہاں اچھے ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی کمی ہے۔ ہندوستان میں یقیناً ایسے افراد موجود ہیں جو مواقع بہم پہنچانے پر اپنے آپ کو اس فن کے استاد ثابت کر سکتے ہیں، مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسا کیا ہی نہیں جاتا۔
فلموں کا سادھو، اگر آپ فلموں کو غور سے دیکھنے کے عادی نہیں ہیں، تو بھی آپ نے اپنے ملک کے فلموں میں ایک چیز ضرور نوٹ کی ہوگی، جو بار بار دکھائی دیتی ہے۔ میری مراد اس فقیر یا سادھو سے ہے جسے ہمارے ڈائریکٹر کہیں نہ کہیں گوایا کرتے ہیں۔ منظر نامے میں یہ لکھا ہے کہ ہیروئن اداس بیٹھی ہے اور ڈائریکٹر صاحب کو یہ ظاہر کرنا ہے کہ وہ اداس ہے، غمگین ہے، اس پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ چونکہ کریکٹر کی ساری ذمہ داریاں ان کے سر پر ہیں۔ اس لئے لازمی طور پر انہیں ایسی فضا پیدا کرنی چا ہیئے جس سے تماشائیوں پر یہ واضح ہو جائے کہ ہیروئن اداس بیٹھی ہے۔۔۔ اداس!
ڈائریکٹر صاحب سوچتے ہیں، اپنے تخیل کی کتاب کے سارے ورق پلٹتے ہیں اور اچانک ان کے دماغ میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے۔ نہایت ہی اچھوتا خیال۔ وہ سوچتے ہیں، ’’کیوں نہ بازار سے یا ساتھ والے باغ میں سے کوئی سادھو پر دردگیت چمٹے پر گاتا ہوا گزرے۔ سادھو فلاں فلم میں آ چکا ہے، مگر کیا ہوا۔۔۔ یہ سادھو نہ ہوگا کوئی بھیک مانگنے والا ہوگا اور کیا بھکاری گا کر بھیک نہیں مانگتے۔ ان کے گیت بھی تو اکثر اوقات درد ناک ہوتے ہیں اور کیا ان کے چہرے اداس نہیں ہوتے۔۔۔؟ یہ ٹچ حقیقت پر مبنی ہوگا۔۔۔ یہ ٹچ!‘‘
ڈائریکٹر صاحب نے اپنا سر ہلا کر چٹکی بجائی اور ایک بھک منگا گیت سمیت تیار ہو گیا۔ اسٹوڈیو میں ایک آدھ گویا عام طور پرا سٹاک میں ضرور ہوتا ہے، جسے جہاں چاہیں گوا دیا جاتا ہے۔ اس کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں گاتا ہے اور کس لئے گاتا ہے۔ وہ گانے کی ایک مشین ہے، جس کو صرف چابی کی ضرورت ہے اور یہ چابی ہمارے ڈائریکٹر صاحب کے پاس محفوظ ہوتی ہے۔ میں ایک ایسے گویے کو جانتا ہوں جو اسٹوڈیو کے ہر درخت کے نیچے بیٹھ کر ایک نہیں درجنوں گیت گا چکا ہے۔ سمندر کے پاس، دریا کے کنارے، گاڑی میں پیدل اور چل کر اس بیچارے نے خدا معلوم کتنے گیت گائے ہیں۔ کبھی اس کے چہرے پر ڈاڑھی تھی۔ دوبالشت لمبی، کبھی اس کے سر پر جٹیں تھیں، یہ بڑی بڑی، کبھی اس کے ہاتھ میں کشکول تھا اور کبھی چمٹا۔ کبھی اس کے بدن پر راکھ تھی اور کبھی پھٹے پرانے چیتھڑے۔
اس قسم کے ایک سکہ بند گویے کو ڈائریکٹر صاحب نے میک اپ ایکسپرٹ کے حوالے کیا۔ جس نے اس کے بدن پر سالہا سال کے پرانے اور بدبودار چیتھڑے چپکا دیے، چہرے پر میک اپ کا روغن مل کر بڑھاپا پیدا کرنے کی خاطر چند ٹیڑھی بنگی لکیریں کھینچ دیں اور اسے آئینہ دکھلا کر سیٹ پر بھیج دیا۔ گیت کی ریہرسل ہوئی۔ ستار کے تار کی آواز بلند ہوئی اور ہمارے اس گویے کو کیمرے نے نگل لیا اور جب پروجیکٹر نے اس کو پردے پر اگلا تو ہم نے دیکھا کہ ہیروئن نے اپنی آنکھوں سے گوہر کی طرح کے ڈھائی آنسو بہائے۔ دفعتاً طبلے کی تھاپ سنائی دی اور کسی کے گانے کی ’’درد بھری آواز‘‘ بلند ہوئی۔
’’دل ناصبور اداس ہے۔۔۔
مجھے تیرے در کی پیاس ہے
دل ناصبور۔۔۔ اداس ہے۔۔۔‘‘
ہیروئن نے دو آنسو اور بڑی مشکل سے نکالے۔ کٹ ہوا اور ہمیں ایک بازار میں وہی مصیبت کا مارا گویا بھکاری کے لباس میں راستہ ٹٹولتا اور گاتا دکھائی دیا۔ یہ گیت ساڑھے سات منٹ تک جاری رہا۔ اس دوران میں کبھی ہم نے ہیروئن کو آہیں بھرنے کی ناکام کوشش کرتے دیکھا اور کبھی اس بھکاری کو کن سری تانیں نکالتے ہوئے۔ جب گیت ختم ہوا تو ہیروئن کا باپ، جو دروازے کی اوٹ میں کھڑا یہ سب کچھ سن رہا تھا، اندر آیا اور کہنے لگا، ’’بیٹا تجھے کیا دکھ ہے؟‘‘
میں پوچھتا ہوں
آخر یہ کیا حماقت ہے؟ کیا ہم جب اداس ہوتے ہیں تو ہماری اداسی کی خبر شہر کے بھکاری دوسروں تک پہنچایا کرتے ہیں؟ ایک دو مرتبہ ایسا ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ہم چھ سات ڈائریکٹروں کو اسی قسم کا خون معاف کر سکتے ہیں، مگر ہمارے ذوق کی رگیں یقیناً ایسے جھٹکوں کو مسلسل برداشت نہیں کر سکتیں۔ فلموں میں گویے سادھو اور بھکاری دیکھ کر ہم بیزار ہو گئے ہیں۔ میں، آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ آج سے چار یا پانچ سال قبل جب میں ہندوستانی فلم دیکھنے کا عادی نہ تھا، مجھے سادھوؤں اور بھکاریوں سے بڑی دل چسپی تھی، مگر اب یہ حالت ہے کہ جب کبھی کسی سادھو یا بھکاری کو سڑک پر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے فلموں کا گویا یا سادھو یاد آ جاتا ہے اور مجھے نفرت سے منہ پھیر لینا پڑتا ہے۔
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، ہمارے فلموں میں اس سادھو مہاراج کی ضرورت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے ڈائریکٹروں کے ذہن اتنے عقیم ہیں کہ وہ کوئی دوسرا راستہ، کوئی نیا اسلوب پیدا نہیں کر سکتے۔ فلم میں جہاں کہیں ان کے دماغ تصویروں کے ذریعے سے افسانہ سنانے سے انکار کر دیتے ہیں، وہ اس سادھو کو بلا کر گوا دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہی پتھر سے دو شکار کر لیے ہیں۔۔۔ ایک گیت بھی پیش ہو گیا اور افسانے کا ایک پہلو بھی واضح ہو گیا، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ سینمائی اصول کے پیش نظر یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ اس لئے کہ تماشائیوں کی توجہ افسانے کے تسلسل سے ہٹ کر اس سادھو کی طرف چلی جاتی ہے، جس کا افسانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ چند منٹوں کے لئے پردے پر آتا ہے اور گا کر چلا جاتا ہے اور افسانہ ایک جگہ کھڑا ہو کر رہ جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہاں کسی ایسے فلم نے ضرور غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ہے جس میں اس قسم کا ایک سادھو گویا ہے اور ہمارے پروڈیوسروں نے فلموں کی مقبولیت اور کامیابی کا راز یہ سمجھ لیا ہے کہ ان میں سادھو اپنے گیت سمیت ضرور ہونا چا ہیئے، کتنی بڑی حماقت ہے، ممکن ہے کہ اس سادھو نے بڑا اچھا گایا ہو مگر یہ ضروری نہیں کہ اس فلم کی کامیابی کا سارا دار و مدار اسی پر اور اس کے گیت پر ہو۔ اس کے دوسرے محاسن چھوڑ کر صرف ایک اچھی چیز لے لینا جو صرف اسی میں اچھی دکھائی دے سکتی تھی، ہمارے ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں کے دماغی افلاس کا مظہر ہے۔
کور ذوق پروڈیوسروں کو تو برطرف ر کھیئے۔ ہمارے یہاں کے اچھے اچھے باسلیقہ فلم ساز بھی اپنے فلموں میں اس سادھو کو پیش کر رہے ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سادھو کی آہستہ آہستہ باکس آفس قدر و قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چا ہیئے کہ اس کی اہمیت ان لوگوں نے اور بھی زیادہ کر دی ہے حالانکہ اگر یہ چاہیں تو چشمِ زدن میں یہ بدعت جو سارے فلموں پر ایک بدنما دھبے کی صورت اختیار کر گئی ہے، دور ہو سکتی ہے۔ یہ سادھو ان لوگوں ہی کی تخلیق ہے اور یہی لوگ اسے کفنا کر کسی گہری قبر میں دفن کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو ذوق صحیح کے مالک ہیں، ان سادھوؤں سے تنگ آ گئے ہیں۔ گزشتہ برس ہمارے پروڈیوسر درجنوں کے حساب سے ایسے سادھو پردے پر پیش کر چکے ہیں۔ آئندہ جو فلم پیش کئے جائیں، ان سے پاک ہوں۔
فلموں کے ولن
ہمارے فلموں پر پرانے امریکی فلموں کا رنگ اس قدر غالب ہے کہ اب بھی جبکہ ہندوستانی صنعت فلم سازی اپنا جشن سیمیں منانے والی ہے، ہم ان میں وہ چیزیں جو اب یعنی جدید خیالات و رجحانات کے اس دور میں عجیب و غریب اور نامانوس معلوم ہوتی ہیں، دیکھتے ہیں۔ صنعت فلم سازی کے آغاز میں جو خطوط یورپ میں اختیار کئے گئے تھے، ہم آج بھی انہیں ہندوستانی سیلولائڈ پر دیکھ رہے ہیں، جس سے ہماری طبیعتوں کے جمود کا پتہ چل سکتا ہے۔
اب تک جس قدر فلم ہمارے یہاں تیار ہوئے ہیں، ان میں اکثر ایسے ہیں جو کولہو کے بیل معلوم ہوتے ہیں۔ ان سب کا محور ایک ہی ہے۔ راقم الحروف کو بیشتر اوقات ایسے کئی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ اگر ان کے کیریکٹروں کے نام بدل دیے جائیں تو ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ ایک ہی افسانہ، ایک ہی مطلب اور ایک ہی تکنیک۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو تین شخص ایک ہی قطار میں کھڑے ہو کر ایک کہانی بیان کر رہے ہیں۔ یہ یکسانیت، یہ یک آہنگی بالخصوص جدت پسند طبیعتوں پر ایک نہایت ہی ناگوار بوجھ ڈالتی ہے۔ جس کو دور کرنا از بس لازم ہے۔
شروع شروع میں فلمی افسانے تین اہم کرداروں پر استوار کئے جاتے ہیں۔ ہیرو، ہیروئن اور ولن۔ یہ بدعت ابھی تک جاری ہے۔ پردے پر ابھی تک یہ تثلیث چپکی ہوئی ہے۔ ہوشمند سے ہوشمند پروڈیوسر فلم بنانے پر ہیرو کے ساتھ ہیروئن اور پھر ان کے جلو میں ولن ضرور ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیرینی کے ساتھ تلخی بھی ہونی چاہیئے اور روشنی کے ساتھ سائے بھی دکھانے چاہئیں، پر اس کا سلیقہ ہونا چا ہیئے۔
میں ہیرو، ہیروئن اور ولن کے وجود پر معترض نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ افسانے کے اہم جزئیات ہیں، پر مجھے ایسے ہیرو، ایسے ولن اور ایسی ہیروئن دیکھنے سے سخت نفرت ہے، جن کے ماتھوں پر پہلے ہی سے لیبل لگا دیے گئے ہوں اور ان کو علیحدہ علیحدہ کر کے بتا دیا گیا ہو۔ میں ادب اور فلم کو ایک ایسا مے خانہ سمجھتا ہوں جس کی بوتلوں پر کوئی لیبل نہیں ہوتا۔ میں ساری بوتلوں میں سے ایک ایک گھونٹ پی کر خود فیصلہ کرنے کا اختیار چاہتا ہوں کہ ان میں سے کون سی دو آتشہ ہے، اور کون سی سہ آتشہ ہے، اگر مجھ سے یہ اختیار چھین لیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ میرے مذاق کے تمام دروازوں پر تالے جڑ دیے گئے ہیں، جن کی کنجیاں میرے پاس نہیں ہیں۔
پھر میں یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ ہمارے سب افسانوں کا ہیرو ایک ہی قسم کا ہو۔ خوبصورت، شکیل، نوجوان، بہادر، رحم دل وغیرہ وغیرہ، جو شروع سے لے کر آخر تک لڑتا رہے۔ اس کی تلوار میں ایسی طاقت ہو کہ بڑے بڑے جغادریوں کے گلے کاٹ کر رکھ دے۔ پر دوسروں کی تلواریں اس کے گلے پر چل ہی نہ سکیں۔ اس کا پریم، اس کی محبت سچی ہو اور بے چارے ولن کا عشق بالکل جھوٹا ہو۔ ایسے ہیرو میرے قیاس سے بہت بالاتر ہیں۔ میں پردے پر جب اس قسم کے لوگ دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک بہت بڑی گپ سن رہا ہوں۔ میری طبیعت ایسی حقیقت سے بعید چیزوں کو قبول ہی نہیں کرتی۔
میری نظروں میں ہیرو وہی ہے، جسے میرا دل قبول کر لے۔ جس کے لئے میرے دل کی عمیق ترین گہرائیوں میں ہمدردی پیدا ہو۔ جس کے دل کی دھڑکنیں ایک بار میرے دل کی دھڑکنوں میں گھل مل جائیں۔ میرا ہیرو وہ ہے جو انسان ہو۔ انسانیت کا صحیح نمونہ برائیوں اور اچھائیوں سمیت۔ میرا ہیرو فرشتہ نہیں ہے، ا س لئے کہ میں زمین پر رہتا ہوں۔ میرا طائر فکر آسمان کی انتہائی بلندیوں پر پرواز کرے گا، لیکن تمام وقت اس کی نگاہیں اپنے آشیانے پر جمی رہیں گی۔ جو مٹی کی گود میں ہے وہ ستاروں کی تابانی کی طرف بڑھے گا، مگر صرف ا س لئے کہ وہ ان کو نوچ کر زمین کے ننگے سینے پر جڑ دے۔ مجھے بے کاخ و کو دنیا کے فرشتوں سے نفرت نہیں ہے، مگر مجھے اپنے بھائی انسانوں سے زیادہ محبت ہے، جو اس رنگ و بو کی دنیا میں رہتے ہیں۔
اپنے یہاں کے فلموں میں نیکوکار اور فرشتہ سیرت ہیرو کو دیکھ دیکھ کر مجھے بعض اوقات سخت تعجب ہوتا ہے اور میں ان کو ایک ایسی دنیا کے باشندے سمجھنے لگتا ہوں، جو میری حد نظر سے بہت دور ہے اور جب میں ان کے ساتھ ساتھ ولن دیکھتا ہوں تو میرا تعجب اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ مخلوق بھی مجھے اس دنیا کی معلوم نہیں ہوتی۔
ہمارے فلمی افسانوں میں جس قدر کیرکٹر بھی پیش کئے جاتے ہیں، ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کو حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ صرف ایک افسانہ بنانے کی خاطر مٹی کی ان ٹیلیوں کو جو چاہے شکل دے دی جاتی ہے اور ہیرو، ہیروئن اور ولن کے مختلف لیبل لگا دیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات عورت کو اس طور پر پینٹ کیا جاتا ہے کہ وہ آسمانی حور معلوم ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کی تصویر کو اس قدر تاریک بنا دیا جاتا ہے کہ وہ چڑیل اور ڈائن معلوم ہوتی ہے۔ عورت جیسی کہ وہ ہے بہت کم افسانہ نگاروں کے تخیل میں ہے۔ اس کی وجہ اس حقیقت کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے یہاں عورت اور مرد کے درمیان ایک زمانے سے موٹا پردہ حائل ہے۔
ہمارے افسانوی ادب میں جن عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے اسی فیصدی ایسی ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ ان میں اور اصل عورتوں میں وہی فرق ہے، جو ٹکسالی روپے اور جعلی روپے میں ہوتا ہے۔ دونوں کا وزن برابر ہو سکتا ہے۔ بادی النظر میں دونوں ایک جیسے ایک شکل کے معلوم ہوتے ہیں۔ پر وہ کھنکھناہٹ جو ٹکسالی روپے میں ہوتی ہے، اس روپے میں نہیں ہوتی۔ ہمارے ان افسانوں کی یہ عورتیں، عورتیں ہوتی ہیں، مگر ان میں وہ عورت پن نہیں ہوتا، جو عورت کو صحیح عورت بناتا ہے۔
انسانوں میں بے شمار سیاہ کار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اس دنیا میں لاکھوں بلکہ کروڑوں ایسے لوگ موجود ہیں جو بے رحم قصائیوں سے کہیں زیادہ بے رحم اور ظالم ہیں۔ پست سے پست ذہنیت کے لوگ موجود ہیں۔ اس دنیا میں گناہ گاروں کی بھی کمی نہیں، پر جو گناہ گار، جو سیاہ کار، جو ظالم ہم پردے پر ولن کی شکل میں دیکھتے ہیں، کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ یہ لوگ مجھے ایسے اذہان کی تخلیق معلوم ہوتے ہیں جو گناہ اور ثواب، سزا اور جزا، ظلم اور رحم میں تمیز ہی نہیں کر سکتے۔ ایک اور بات جو ان اذہان کی مخلوق دیکھ کر میرے ذہن میں آتی ہے، یہ ہے کہ جب وہ ایسے کردار تخلیق کرنے لگتے ہیں تو ان پر ایک قسم کا رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔ وہ خوف کھانے لگتے ہیں، اگر انہیں اپنے کردار سے کوئی گناہ کرانا ہو تو وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ گویا وہ خود کوئی گناہ کر رہے ہیں۔
یہ جھجک، یہ کرنے اور نہ کرنے کی درمیانی چیز جب ہم پردے پر دیکھتے ہیں، تو افسانہ نگار صاحب کا ولن ہمیں ایک نامکمل سا کھلونا نظر آتا ہے۔ پردے پر کرداروں کی بھاگ دوڑ کے علاوہ ہم افسانہ نگار کا ذہن بھی دیکھتے ہیں، چنانچہ جب متذکرہ صدر قسم کے کیریکٹر ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں، تو ہمیں ان کے بنانے والے کا دماغ بھی ساتھ ساتھ نظر آتا ہے، جو ایک ایسی کل، ایک ایسی مشین معلوم ہوتا ہے جس کے پرزے صرف پرانی رسموں، پرانے عقیدوں اور کہنہ اخلاقیات کے گاڑھے تیل کے بغیر چلتے ہی نہیں۔ یہ تیل جس کولہو میں پیرا گیا تھا، اب اس کا وجود بھی باقی نہیں۔ کیا اب نئی چکناہٹ تلاش نہ کرنا چا ہیئے۔
ہمارے افسانہ نگاروں کی سب سے مضحکہ خیز تخلیق ولن ہے۔ جس کی ساری عمر گناہ میں بسر کرائی جاتی ہے اور آخر میں اسے نیکی کے سمندر میں غوطہ دے دیا جاتا ہے تاکہ ہمارے فاضل افسانہ نگار کا اخلاقی پہلو تنقید سے بچا رہے۔ ان کے پیش نظر اپنے کردار کے تشخص کے بجائے اپنا تشخص ہوتا ہے، اگر ان کا کوئی کیریکٹر برا کام کرے تو وہ سمجھتے ہیں کہ خود ان سے کوئی بری حرکت سرزد ہو گئی ہے، چنانچہ ہم ان کے افسانوں سے محسوس کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اسے چھپانے کی کوشش بھی کی تھی۔ اسی طرح اگر ان کے کسی کیریکٹر سے کوئی اچھا کام ہو جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ خود انہوں نے کوئی اچھا کام کیا ہے، چنانچہ ان کی مسرت ہمیں ان کے کیریکٹر کے چہرے پر نظر آ سکتی ہے۔ اس قسم کا بچپن، اس قسم کی سستی جذباتی کیفیت اعلیٰ درجے کے ادب میں نہیں آنا چاہیئے۔
افسانے کی بساط شطرنج کی بساط نہیں، جس پر صرف مقررہ مہرے چلتے ہیں۔ افسانے کی بساط اس وسیع دنیا کی بساط ہے، جس پر ان گنت مہرے چل رہے ہیں۔ افسانے، ہیرو، سائیڈ ہیرو، ہیروئن، سا ئیڈ ہیروئن، ولن، سائیڈ ولن، وہیمپ اور سائڈ وہیمپ کے بغیر بھی افسانے، افسانے ہو سکتے ہیں، پر ذرا سمجھ کی ضرورت ہے۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |